جمعرات ‘ 27 ؍ رمضان المبارک 1441 ھ‘ 21؍مئی 2020ء
ٹرین اور ٹرانسپورٹ کی بحالی سے پردیسیوں کے چہرے کھل اٹھے
ظاہری بات ہے ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ عید کا دن اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارے۔ امیر ہو یا غریب‘ عید کی خوشیاں سب مناتے ہیں۔ بھری جیب والا بھی اور خالی جیب والا بھی۔ یہ دن اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بڑے شہروں میں یا دوسرے شہروں میں لاکھوں پاکستانی اردگرد کے چھوٹے دیہات یا پسماندہ علاقوں سے ملازمت کرنے‘ کام کرنے کیلئے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی تو پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ عید کی چھٹیاں اپنے گھر میں گزارے۔ اس لئے ہر سال جب یہ لاکھوں افراد اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کی قلت محسوس ہوتی ہے اور یہ ظالم ٹرانسپورٹر ان پردیسیوں سے دوگنا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ مگر گھر جانے کی خوشی میں یہ پردیسی یہ ظلم بھی سہہ لیتے ہیں۔ ٹرینوں میں بھی معمول سے زیادہ رش ہو جاتا ہے مگر اس کا ٹکٹ وہی رہتا ہے جو عام دنوں میں ہوتا ہے۔ اب کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون کے دوران لگ ایسا رہا تھا کہ اس بار پردیسی اپنے گھروں کا رخ نہیں کر سکیں گے مگر حکومت کی طرف سے نرمی کے اعلان کے بعد تو گویا جیل کے دروازے کھل گئے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں جانے کی ریس لگ گئی ہے۔ عید منانے کیلئے جانے والوں کا جم غفیر ریلوے سٹیشنوں‘ بس اڈوں پر نظر آ رہا ہے۔ جو ہنسی خوشی واپس گھر جانے کیلئے ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں لٹنے کے باوجود ہنستے مسکراتے…؎
ٹکٹ کٹائو تے لین بنائو
اساں وی جاناں اے بلو دے گھر
کہتے نظر آرہے ہیں۔
٭…٭…٭
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے دو تین سال سے متواتر فیل ہونیوالے میٹرک اور ایف اے کے طلباء کو پاس کر دیا
بات صرف پاس ہونے تک ہی رہتی تو شاید شور نہ ہوتا کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال اور لاک ڈائون کی وجہ سے ایسا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے اس سے ریگولر پاس ہونے والے ہزاروں طلباء میں بے چینی پھیلی ہے کہ ان تمام فیل ہونے والے طلباء کو بھی 90 فیصد نمبر دیئے گئے۔ یوں ’’ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا ہو‘‘ والی مثال سامنے آنے سے یہ ذہین طلباء پریشان ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس طرح ان کی حق تلفی ہوئی ہے کیونکہ اب فیل طلباء بھی اے پلس گریڈ لیکر ان کے مدمقابل کھڑے ہیں اور محنت کرنے والے یہ طالبعلم حسرت سے یا حیرت سے ان کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ بے شک نالائقوں کو نوازنے میں ہم اور ہمارے ادارے اپنا مقام رکھتے ہیں۔ مگر اس طرح ’’دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے۔‘‘ والا سین پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بے شک کرونا کی وجہ سے محکمہ تعلیم نے نویں تک کے اور گیارہویں کے بچوں کو سابقہ نتائج کی بنیاد پر اگلی کلاس میں پرموٹ کیا مگر فیل ہونے والے نالائق طلباء اس لائن سے باہر ہیں۔ اب معلوم نہیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کس قاعدے کے تحت ’’اسپ وخر‘‘ کو ایک ہی لائن میں کھڑا کر دیا ہے۔ ان دونوں میں بہرحال کچھ نہ کچھ تو تفریق ہونی چاہئے ورنہ اے پلس گریڈ لینے والے محنتی طلباء کہیں خود کو خچر نہ سمجھنے لگ جائیں۔
٭…٭…٭
بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی: چیئرمین واپڈا
اسی لیے تو لوگ کہتے ہیں کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائیں۔ ایک ڈیم بننے سے جہاں پانی ذخیرہ ہوتا ہے‘ سستی بجلی بھی پیدا ہوتی ہے۔ میٹھے پانی کا ضیاع نہیں ہوتا۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ وہاں ملکی معیشت اور زراعت پر بھی اس کا اچھا اثر پڑتا ہے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے ہمیں مہمند اور کالاباغ ڈیم سمیت ہر چھوٹے یا بڑے ڈیم جلد از جلد تعمیر کرنا ہونگے۔ سیاسی نعرے بازی اور اختلافات کے ڈر سے اگر ہم ایسے اچھے کام چھوڑیں گے تو اس کا نتیجہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا۔ اس وقت بھی ہم بدترین آبی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ہمارا دشمن ہمارے دریائوں پر ہماری طرف سے ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے عالمی قوانین کا سہارا لیکر ان دریائوں پر بھی ڈیم بنا رہا ہے جو ہمارے حصہ کے دریا ہیں۔ اس کی وجہ صرف ہماری کوتاہیاں ہیں جبکہ ہمارا دشمن ان دریائوں کا پانی روک کر ہماری معیشت اور زراعت کو تباہ کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ملک میں بہنے والے بڑے چھوٹے دریائوں پر ڈیم بنا کر آبی قلت پر قابو پا سکتے ہیں۔ سستی بجلی پیدا کرکے لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری نہریں سارا سال رواں رہ کر ہماری پیاسی دھرتی کو سیراب کر سکتی ہیں۔ اب وہ دور گزر گیا جب عوام کو بے وقوف بنا کر گمراہ لوگ ایسے کاموں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔
٭…٭…٭
کویت میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والوں کو کرفیو پاس جاری
لیجئے جناب! اب یہ ایک اور فائدہ بھی سامنے آ گیا ہے کثرت ازدواج کا۔ اب تو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے اسے ایک اہم دلیل بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ کویت میں کرونا وائرس کی وجہ سے صرف لاک ڈائون ہی نہیں باقاعدہ کرفیو نافذ ہے تاکہ لوگ گھروں میں رہ کر اس خوفناک وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ دیگر کئی ملکوں میں بھی ایسا ہی کرفیو رہتا ہے۔ ہماری طرح وہاں نرمی کامطلب مکمل آزادی نہیں کہ لوگ دیوانہ جان کی پرواہ کئے بغیر شاپنگ کرتے نظر آئیں ۔ بعدمیںچاہے پچھتانا ہی کیوں نہ پڑے۔ عرب معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج ہے۔ اس لئے اب کویت میں ایسے شوہروںکو دوسری یا تیسری بیویوںکے پاس بھی جانے کے لئے کرفیو پاس جاری کر دئیے گئے ہیں تاکہ صرف کسی ایک بیگم کے پاس رہنے کا شکوہ خانہ جنگی کا باعث نہ بنے۔ ابھی تک پاکستان میںکرفیو جیسی نوبت نہیں آئی ورنہ کویت کے فیصلے کی آڑ میں کئی پاکستانی بھی اپنے لئے کرفیو پاس جاری کرنے کی درخواستیں دیتے پھریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں اسکے بعدخانہ جنگی کا خطرہ سو فیصدبڑھ جائے گا۔ جب ان لوگوںکے گھروں سے …ع
’’چن کتھاں گزاری آئی رات وے‘‘
کا نغمہ باآواز بلندنشر ہوتا سنائی دے گا۔