عوام کیلئے آسانیاں ۔وزیر اعظم کی خوشیاں

جو وزیر اعظم نے چاہا نہیں تھا وہ بھی ہو گیا، ویسے وہ کبھی لاک دائون کے حق میں تھے ہی نہیں۔عالمی ایس ایچ او کا دبائو نہ ہوتا توو ہ تھوڑے تھوڑے وقفے والالاک ڈائون بھی نہ کرتے۔ اب تو وزیرا عظم کا یہ قول ایک محاورہ بن کر تاریخ میں محفوظ ہو گیا ہے کہ اتنے لوگ کرونا سے نہیں مریں گے جتنے فاقوں سے دیہاڑی دارا ور مزوروں کی جانیں جا سکتی ہیں۔ اسی فلسفے کا جادو آج پوری دنیا پر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ ملک بھی لاک دائون کھولنے پر مجبور ہیں جہاں روز دو ہزار اور آج بھی سینکڑوں افراد موت کی نیند سوتے ہیں۔
کرونا سے کسی نے انکار نہیں کیا ، یہ مہلک مرض ضرور ہے مگر کیا یہی واحد مہلک مرض ہے۔ کیا کینسر سے روزانہ لاکھوں افراد نہیں مرر ہے،۔ کیا نو زائیدہ بچے پہلا سانس لیتے ہی نہیں مر رہے ۔ کیا مائیں بچوںکو جنم دینے کے دوران نہیں مرتیں۔ کیا شوگرا ور بلڈ پریشر جانیں نہیں لیتے اور کیا دل ا ور دماغ کے دورے سے لوگ نہیں مرتے۔ حادثوں میں ، دہشت گردی میں۔ آپس کی دشمنیوں کی قتل و غارت میں لاشوں کے ڈھیر نہیںلگتے۔ کیا ان اموات کے خوف سے ہم نے اپنے آپ کو کبھی گھروں میں قید کیا، کیا ہم نے بازار بند کئے، کیا پبلک ٹرانسپورٹ بند کی۔کیا ستم ہے کہ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں ایک صوبہ کہتا ہے کہ وہ اپنی زنیوں کا مالک ہے اور یہاں سے ٹرینیں نہیں گزرنے دے گا کل کو وہ کہ سکتا ہے کہ سمندر کا مالک وہ ہے۔ کوئی بحری یا جنگی جہاز نہیں چلنے دیا ۔ کبھی اس کا جی چاہے تو کہہ دے کہ دفاع وفاق کا ایشو ہے۔ا س لئے اس کے صوبے سے چھائونیاں ہٹائی جائیں، یہ کوئی انہونی نہیں، یہ صوبہ پنوں عاقلی چھائونی پر باقاعدہ مزاحمتی تحریک چلا چکا ہے مگر چھائونی بن گئی تو یہی صوبہ اسے عمر اور سکون کی ضمانت سمجھتا ہے۔
عمران خان جو کچھ نہیں چاہتے تھے، وہ بھی ہو گیاا ور اس ملکی سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور خود کی ماری افسر شاہی کے سارے احکامات معطل کر دیئے اور حکم جاری کر دیا کہ دکانیں پانچ بجے کے بعد بھی کھلیں گی اور جمعہ ،ہفتہ، اتوار کی چھٹی بھی نہیں کریں گی۔
عمران خان یہ حکم دیتے تو صوبوں نے آسمان سر پہ اٹھا لینا تھا مگر یہ کام سپریم کورٹ نے کر دکھایا ۔ اب کسی کی مجال کہ چوں چراں کرے اور حکم کی تعمیل نہ کرے۔
اب تو شیخ رشید بھی زیر ہو گئے ہیں اور پورے ملک میں عید کے لئے ٹرینیں چالو کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ سپریم کورٹ کی طاقت ہے اور میں یہ بھی کہوں گا کہ وزیر اعظم عمران خان کی عوام دوستی رنگ لائی ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کا راستہ صاف کردیا۔
جس دن وزیر اعظم نے لاک ڈائون میں نرمی کاا علان کیا تو اسی روز دنیا کی سپر پاور امریکہ کا صدر بھی کہہ رہا تھا کہ ویکسین بنے نہ بنے ملک کھلے گا اور امریکہ کھل گیا۔ یورپ کھل گیا، چین نے تو صرف ایک شہر کو لاک ڈائون کیا تھا باقی سار املک کھلا رکھا۔ سب دفاتر کھلے رہے۔ جہاز چلتے رہے بسیں دوڑتی رہیں اور بلٹ ٹرینیں فراٹے بھرتی رہیں۔
کاش کوئی چین سے سبق لیتا اور اپنے اعصاب پر قابو پاتا، حواس باختہ نہ ہوتا اور خلو خدا کو گھروں میں بند کر کے اذیت میں مبتلا نہ کرتا۔ اور کون جانے کہ لاک ڈائون کے دوران کرپشن کا بازار کتنا گرم ہوا، جب پوری طاقت پولیس کے عام سپاہی کی ہو تو وہ اپنی خدائی چمکاتا ہے ۔ پتہ بھی ہلے تو چالان ۔ تالا اور حوالات میں بند۔ پولیس اپنے زہن کو استعمال نہیں کر سکتی ،۔ اسے آنکھیں بند کر کے اوپر والا حکم منوانا ہوتا ہے اور عوام پر وہ جبراور ستم توڑا گیا کہ خدا کی پناہ۔
وزیر اعظم نے کبھی نہیں کہا کہ کرونا نہیں ،۔ وہ کہتے رہے کہ یہ ہماری زندگی کے ساتھ چلے گا مگر ہمیں مخلوق خدا کے دکھ درد کا لحاظ بھی کرنا ہے۔ ان کا یہ ویژن شروع ہی سے تھا اور اب تک قائم ہے ، وہ کرونا کے خلاف بھی لڑے ہیں اور فاقہ مستوں کے حق میں بھی لڑتے رہے ،
بالاخر انہیں کامیابی مل گئی۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آج وزیر اعظم کی خوشیوں کی کوئی ا نتہا نہیں ہو گی۔ کوئی ان پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ وہ اپنی دکانیں، یا اپنے شاپنگ مالز کھلوا رہے ہیں۔ یا اپنے حجاموں کی طرف داری کر رہے ہیں ، انہوں نے کنسٹرکشن کھولی تو الزامات کی بارش ہو گئی مگر کنسٹرکشن تو چائنہ نے بھی کھولی۔ امریکہ نے بھی کھولی۔ وہاں تو نیب زدہ اپوزیشن نے شو ر و غل نہیں مچایا، مہذب ممالک میں گھٹیا الزامات نہیں لگتے ۔
ہماری اپوزیشن کا تو باوا آدم ہی نرالاہے، اسے تو نیب طلب کرے تو غل غپاڑمچ جاتا ہے کہ کرونا میںبھی مخالفیں کو چین نہیں لینے دیتے، تو کیا کروناکے دوران کوئی کسی کو قتل کردے۔ یا لوٹ لے توا سکے خلاف ایکشن نہیں ہو گا۔ کرونا کوئی عام معافی کا پروانہ تو نہیں۔
وزیر اعظم کا خدا پر ایمان پختہ ہے ۔ اس لئے وہ با اعتماد دکھائی دیتے ہیں اور گبھراہٹ میں فیصلے نہیں کرتے۔ وہ تو سبھی کو کہتے ہیں کہ گبھرانانہیں ۔ تو وہ خود نہیں گھبرائے اور امتحان کے پہلے مرحلے میں سرخرو نکلے۔ اب عوام احتیاط برتیں گے تو آگے بھی آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔
٭…٭…٭