امریکہ ایران جنگ کے گہرے ہوتے بادل
ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح صرف ایک وار کی مار ہے۔ ہماری امریکہ اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے ساتھ بیک وقت نفسیاتی جنگ، سائبر کارروائیاں، سفارتی اور فوجی محاذوں پر کارروائیاں جاری ہیں۔ امریکہ ایران کشیدگی خلیج میں صورتحال کو مزید گھمبیر کر رہی ہے۔ جنگ کے سائے روز افزوں گہرے ہو رہے ہیں۔ امریکہ خلیجی ممالک سے ایران کے خلاف ان کے سمندر استعمال کرنے کی اجازت لے چکا ہے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران نے مذکورہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کے باوجود امریکہ ایران پر چڑھائی کر رہا ہے۔ اس موقع پر عالمی برادری کو امریکہ ایران کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی مگر کچھ حلقے مزید غلط فہمیاں پیدا کر نے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکی سینٹ کے رکن اور ری پبلکن رہنما مائیکل ماکول نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی فوجیوں ا ور شہریوں کے اغواء کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس حوالے سے لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ایک خلیجی ملک کے وزیر نے کہا ہے کہ ایرانی حکومت خطے کے امن اور استحکام کے لیے کام نہیں کر رہی ہے۔ ان کا ملک خطے میں جنگ نہیں چاہتا، تاہم دوسرے فریق نے اگر جنگ کی راہ اختیار کی تو بھرپور طاقت سے جواب دیاجائیگا۔ انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر چلے۔مسلم ممالک کو امریکہ ایران کشیدگی میں خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خطے کی تازہ صورت کے تناظر اور خلیج کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کا 30 مئی کو اجلاس طلب کر لیا۔ انہی دنوں او آئی سی کا سربراہی اجلاس بھی جدہ میں ہو رہا ہے۔ اس میں بھی خلیج کی صورتحال زیر بحث آئے گی جس سے بہتری کی امید ہے۔