منگل ‘ 15 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 21 ؍مئی 2019ء
بہاولپور صوبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ طارق بشیر چیمہ
بہاولپور صوبہ نہیں بن سکتا۔ خسرو بختیار
ابھی گائوں آباد ہوا نہیں فساد پہلے پڑ گیا ہے۔ وزرا کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں عوام کی نہیں اپنے اپنے سیاسی و دیگر مفادات کی فکر ہے اور نامعلوم ہاتھ کو صرف اور صرف پنجاب کی ایک اور تقسیم درکار ہے۔ ق لیگ والے بہاولپور صوبے کی بحالی سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ تو سینے پر گولی کھائیں گے۔ بہاولپور صوبہ بنائیں گے والی جذباتی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ دوسری طرف سرائیکی صوبے کے حامی تخت ملتان کوجلوہ گاہ بنانے سے ایک قدم بھی پیچھے ہونے کو تیار نہیں۔انہیں بہاولپور صوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ صرف تخت ملتان کی بحالی چاہتے ہیں۔ یوں حکمران اتحاد کے اندر ہی تخت بہاولپور اور تخت ملتان کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو عمران خان صاحب کو جنہیں سرائیکی صوبہ بنانے میں مزہ آ رہا تھا‘ اب بہاولپور صوبہ بھی بنانا پڑے گا۔ یوں تخت لاہور کے اندر سے تخت ملتان اور تخت بہاولپور پیدا کرنے کی سبیل نکالی جائے گی۔ حیرت ہے یہی نیک جذبہ ہزارہ صوبہ بنانے کے لیے بیدار کیوں نہیں ہوتا۔ کیا عمران خان کو بابا حیدر کی ہزارہ صوبے کے لیے طویل جدوجہد یاد نہیں رہی۔ یا خان صاحب تخت پشاور سے ڈرتے ہیں۔ بہرکیف اب دیکھنا ہے خسرو بختیار اور طارق بشیر چیمہ کی یہ لام بندی کیا رنگ لاتی ہے۔ کہیں اس باہمی خانہ جنگی میں حکومت کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ تخت ملتان لیتے لیتے تخت لاہور ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ضرور ہو گا جو لکڑی کے محل میں بیٹھے ہیں۔ ایک ذرا سی چنگاری اسے بھسم کر سکتی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ کل یہی لوگ کہتے پھریں …ع
’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘
٭٭٭٭
آسٹریا میں خاتون رکن پارلیمنٹ کا حجاب میں خطاب
اچھا کام یا اچھی بات جہاں بھی ہو اس کی ستائش ہونی چاہئے۔ اب آسٹریا کی اس رکن پارلیمنٹ مارتھا بیسمین کو ہی دیکھ لیں کس قدر دلیراور حق گو خاتون ہیں۔ آسٹریا میں حجاب لینے پر پابندی کا قانون بن چکا ہے۔ مگر انہوں نے کسقدر خوبصورتی سے اپنی پارلیمنٹ کے ارکان کو حجاب کے حقیقی تصور سے روشناس کرایا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں حجاب کرکے خطاب کیا اور پوچھا کہ کیا سر ڈھانپ لینے سے حجاب کرنے میں بدل گئی۔ میری شخصیت بدل گئی۔ میں پہلے بھی مارتھا بیسمین تھی اب بھی ہوں۔ ان کے اس خوبصورت انداز سے امید ہے بہت سے دل بدل گئے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں تو کم از کم ان کے حجاب کے بارے میں منفی خیالات ضرور کم ہوئے ہوں گے۔ مغربی معاشرے میں ایک طرف مارتھا جیسی متعدل مزاج خواتین بھی حجاب کے بارے میں رائے عامہ کی غلط سوچ کو سدھار رہی ہیں تو دوسری طرف فرانس جیسے آزاد خیال لبرل اور سیکولر ملک میں ان مائوں پر سکارف پہننے کی پابندی لگائی گئی ہے جو بچوں کو سکول چھوڑنے آتی ہیں۔ اب ایسی عورتوں کو جو ظاہر ہے مسلم ہی ہوں گی اپنے بچوں کو سکول چھوڑتے یا لاتے وقت سکارف پہن کر آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایسی ہی پابندی کئی اور مغربی ممالک نے بھی لگا رکھی ہیں۔ چند ایک شدت پسندوں کی سزا سارے مسلمانوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ بات ان معاشروں سے ضرور پوچھی جانی چاہئے جو قدم قدم پر آزاد خیال سیکولر ازم اور سماجی مساوات کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں اور ایک معمولی سا حجاب یا سکارف ان کو ہضم نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭
ون ویلنگ کرنے والوں نے ڈولفن اہلکاروں کی پٹائی کر دی
آج کل لگتا ہے ڈولفن فورس کے ستارے گردش میں ہیں یا برے دن آئے ہیں۔ کبھی ان کے ہاتھوں کسی شہری کے پٹنے کی خبر آتی ہے کبھی ان کی گولی سے کوئی بے گناہ راہی ملک عدم ہوتا ہے اور کبھی ون ویلنگ کرنے والے اجتماعی ہلہ بول کر ڈولفن والوں پر شارک بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز ساندہ میں ون ویلنگ کرنے والے بدمست ٹولے کو جب ان ڈولفن والوں نے روکا تو بس پھر کیا تھا …؎
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا کہ میری شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
ون ویلروں نے قومی یکجہتی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی راہ میں مزاحم ہونے والے ان وردی پوشوں کی ایسی خبر لی کہ اعلیٰ پولیس حکام بھی تھرتھرا کر رہ گئے۔ اب ڈی آئی جی آپریشنز نے فوری ایکشن لینے کا حکم دیا ہے۔ جس کے بعد ظاہر ہے ون ویلر بھی جانتے ہیں کہ انہیں کچھ دن آرام کرنا پڑے گا۔ بعد میں جب ڈولفن والوں کی چوٹیں اور معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر وہی لاہور کی سڑکیں ہوں گی اور یہی ون ویلر اس پر ادھم مچاتے نظر آئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ کس کس علاقے میں کون کون ون ویلر ہے۔ کس کس سڑک پر شرط لگا کر ون ویلنگ کے نام پر جوا ہوتا ہے۔ کیا پولیس والے اس سے بے خبر ہیں۔ یا اعلیٰ افسران کو انہوں نے بے خبر رکھا ہے۔ مگر سب آنکھ موندھ لیتے ہیں سو اب بھی یہی کچھ پھر ہو گا۔ ورنہ پولیس والے اگر سفارش سننا بند اور ون ویلروں کی موٹر سائیکلیں ضبط کرنا شروع کر دیں تو اس بیماری کا شافی علاج ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
مودی نے یوگی کا روپ دھار لیا
کوئی ایک رنگ ہو تو اس کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ مودی جی تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے بھی ماہر ہیں۔ یہ گنگا گئے تو گنگا رام جمنا گئے تو جمنا داس بن جاتے ہیں ا ور اپنی اس کایا کلپ پر رتی بھر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ گزشتہ دنوں بھارت میں الیکشن کی گہماگہمی تھی، جسے جمہوری میلہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں بھی کمبھ میلے کی طرح دور دراز سے طرح طرح کے سیاسی سنیاسی یوگی، مہارشی، گرو ، چیلے ، سادھو، سنت، فقیر، نانگے سادھو اور اگوری وغیرہ آتے ہیں۔ طرح طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں۔ سو انگ بھرتے ہیں۔ ووٹروں کی طرح یاتریوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اب مودی جی بھی انہی میلے والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کے سوانگ رچا رہے ہیں ڈھونگ دکھا رہے ہیں۔ کبھی حملہ آور بن جاتے ہیں کبھی بھیگی بلی، کبھی یوگی اور کبھی راکھشش۔ اس طرح وہ ہندوستان میں آباد ہندوئوں کے ہر طبقے کے ووٹروں کو لبھانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اس کوشش میں گزشتہ دنوں انہوں نے ووٹروں کا دل لبھانے کے لیے ہندوئوں کے ایک مقدس غار میں جا کرتپسیا کا سوانگ بھرا اور یوگی بن کر آنکھیں بند کر کے فوٹو اتروائی۔ اب الیکشن میلہ ختم ہو چکا ۔ ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ دیکھنا ہے ان کے اس بہروپ کا کتنا اثر ہوتا ہے سادہ لوح ہندو ووٹروں پر۔ مگر ایک چائے والے سے مہارشی تک کا یہ سفر بہرحال مودی جی نے نہایت سرعت اور مہارت سے طے کیا ہے۔ بھارتی اپوزیشن اس کی داد دے یا جلی کٹی سنائے یہ ان کا مسئلہ ہے۔
٭٭٭٭