کیا جیلیں واقعی جرائم کی آماجگاہ ہیں؟
برصغیر پاک و ہند کی جیلیں زیادہ تر برطانوی دور کی تعمیر کردہ تھیں جنہیں آپ عقوبت خانے کا نام دیں تو بے جا نہ ہو گا۔ جب راقم الحروف 1967 ء میں محکمہ جیل خانہ میں بطور آفیسر بھرتی ہوا تو بالخصوص رات کو جیل کے راؤنڈ کے دوران اسیران کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا تھا کیونکہ مغرب کے وقت انہیں بارکان میں بند کر دیا جاتا تھا۔ چڑیا گھر میں حیوان ‘ جانور ان سے بہتر حالت میں بند دیکھے تھے۔ یہاں انسان پہ انسان چڑھا ہوتا تھاکیونکہ گنجائش سے کافی زیادہ تعداد ہوتی تھی۔ جیلوں کی وہ تعداد نہ تھی جو آج ہے۔ ایک ضلع کی جیل میں ملحقہ تحصیلوں(آج کل کے کے ضلع جات) کے اسیران بھی بند ہوتے تھے۔ بہرحال حالات کے ساتھ ساتھ کافی بہتری آئی اور اصلاحات لائی گئیں۔ ہمارے وقتوں میں فنڈز کم دستیاب ہوتے تھے۔ مخیر حضرات‘ امراء جیلوں میں اپنی خدمات ضرورت سے زیادہ پیش کرتے تھے لہٰذا جیلوں کے بارے تصور بھی وہی تھا پرانا‘ دقیہ نوسی‘ عقوبت خانے اور جرائم کی آماجگاہیں وغیرہ وغیرہ۔ راقم الحروف کو بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ہی سپرنٹنڈنٹ جیل کے2 ضلعوں میں فرائض انجام دینے کے مواقع نصیب ہوئے اور اس طرح تقریباً22 سال بحیثیت سپرنٹنڈنٹ یا سینئر سپرنٹنڈنٹ جیل جیلوں کا چارج رہا۔ وہ امن کا زمانہ تھا ماسوائے ملازمت کے آخری چند سال۔ راقم اپنے تجربے کی روشنی میں ذاتی اظہار رائے پیش کرتا ہے۔ جیل خانہ کا تعلق میری نظر میں انسان کی سائیکالوجی اور نفسیاتی پہلوؤں سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ جیل ایک نفسیات کی کتاب ہے اور اس کا اسیر اس کتاب کا ورق ۔ جس کو پڑھنے سے اسکی اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے دور میں جیلوں کے اندر چار دیواری میں اسیران کیلئے مساجد تعمیر کرنے کا رجحان پیدا کیا گیا جو حکومتی خزانے سے نہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے اصول پر تھا۔ اس سے قبل جیلوں کے اندر کوئی مسجد نہ ہوتی تھی۔ سب سے پہلے منڈی بہاء الدین جیل کا جب مجھے سپرنٹنڈنٹ کا چارج ملا تو میں نے اہالیان کو جیل میں مسجد تعمیر کرنے کیلئے راغب کیا جسے بہت پذیرائی ملی۔ اس میں سفید پوش سے لے کر غریب تک سب نے حصہ لیا۔ مسجد کا نام درتوبہ رکھا گیا۔اس دور میں بیرونی ممالک جن میں مغربی‘ افریقی اور متحدہ امارات کی تبلیغی جماعتیں اس میں تشریف لائیں اور اسیران میں دین کی تبلیغ کی۔ کیا وہ جرائم کے فروغ پر درس دینے آتی تھیں؟ اسیران بھی رہائی کے بعد تبلیغی جماعتوں میں شمولیت کیلئے نام لکھواتے تھے۔
اس کے بعد سنٹرل جیل ساہیوال میں ایک بڑی خوبصورت مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ وہاں کے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساہیوال جیل رقبہ کے اور تعداد اسیران کے لحاظ سے بہت بڑی جیل تھی اس لئے مسجد بھی بڑی بنائی گئی۔ جب وہاں سے میرا تبادلہ ہوا بعد میں آنے والے افسران نے بھی اس میں گہری دلچسپی لی۔حسن اتفاق سے جب میں 1998 ء میں یہاں دوبارہ تعینات ہوا تو باقاعدہ باجماعت نماز کی ادائیگی کا بندوبست کر دیا گیا۔ اس کے بعد راجن پور‘ مظفر گڑھ اور بہاولپور جہاں میری ملازمت کی آخری تعیناتی تھی وہاں بھی مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ 2004 ء میں وہاں سے ملازمت کو خیرباد کہا۔ ان مساجد میں دینی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ اسیران حافظ بن کر نکلتے رہے۔دینی اور ادبی تعلیم حاصل کرنے پر اسیران کو حکومت کی طرف سے معافیاں ملتی رہیں۔ قیدمیں تخیف کی جاتی تھی۔ مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودی تفہیم القرآن کی جلد اول کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں کہ’’مجھے اکتوبر 1948 ء میں سیفٹی ایکٹ کے تحت سنٹرل جیل ملتان میں بند کردیا گیا تھا۔ میں نے اس کتاب کی تحریر کا آغاز فروری 1942 ء میں کیا تھا۔ جیل میں مجھے وہ فرصت مل گئی کہ اسے پریس میں جانے کے قابل بنا دیا ۔ جیلوں میں ایسی ایسی شخصیات بھی رہیں جو سیاسی میدان کے نامور کھلاڑی تھے۔بلکہ سربراہ مملکت تک پہنچ کر گارڈ آف آنر بھی لیتی رہیں۔ ان کے مقابلے میں جیلوں کو بدنام کرنے والے کسی ایک شخص کا نام ہی بتا دیجئے جو جرائم کی فیکٹری سے نکل کر ایسے اعزاز حاصل کر چکا ہو۔فرق صرف اتنا ہے ہر شے کا روشن اور تاریک پہلو ہوتا ہے۔ آپ اس کی تشہیر کرنے میں کس پہلو کو ترجیح دیتے ہیں یہ آپ کی سوچ پر منحصر ہوتا ہے۔ جیلوں میں مختلف ہنر سکھانے کیلئے باقاعدہ فیکٹریاں قائم تھیں بلکہ ہیں۔ ان کی آمدنی حکومتی خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ ہمارے دور میں ایک سکیم زیر بحث تھی کہ اس آمدنی میں سے قیدیوں کے اکاؤنٹس میں بھی کچھ رقم جمع ہونے چاہئے جو ان کے لواحقین کو گزر بسر کیلئے بعد میں دی جا سکے۔خدا معلوم یہ بات کہاں تک پہنچی‘ کبھی سننے یا پڑھنے میں نہیں آئی۔ اپنی یادوں کے گلدستے سے چند پھولوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ساہیوال جیل پر تعیناتی کے دوران جون1998 ء میں ایک غیر ملکی جاسوس کو تختہ دار پر لٹکانے کا اتفاق ہوا۔ جنرل مشرف صدر پاکستان کا دور تھا۔ اس نے پھانسی سے قبل ایک وصیت تحریری طور پر چھوڑی کہ اس نے اپنی قید کے دوران ساہیوال جیل میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ باقاعدہ تلاوت قرآن پاک کیا کرتا تھا۔ جب ہم لوگ راؤنڈ پر جاتے تھے اس نے لکھا پھانسی کے بعد اسلامی رسومات کے تحت بحیثیت مسلمان اسکی لاش کو دفنایا جائے۔ اور ورثا پہنچ جائیں تو ان کے حوالے کی جائے ورنہ امانتاً پاکستان میں دفنایا جائے۔چونکہ کوئی وارث نہیں پہنچا تھا اس لئے ساہیوال جیل کے قبرستان میں بحیثیت مسلمان اس کی تدفین کر دی گئی تھی ۔ جس سے ثابت ہوا جیلیں ایک انسان کو اپنی مرضی سے مسلمان بھی بناتی ہیں۔ اسکی وصیت کی کاپی جیل ریکارڈ پر ہو گی۔اس کا یہ وصیت نامہ باقاعدہ پھانسی کے وقت ڈیوٹی مجسٹریٹI کلاس ساہیوال نے میری موجودگی میں تصدیق کیا تھا۔ ایک واقعہ نذر قارئین ہے۔ فوج میں جیسے ایک لفٹین بھرتی ہو کر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر پہنچتا ہے اسی طرح راقم الحروف محکمہ جیل میں ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کے عہدے سے سینئر سپرنٹنڈنٹ جیل تک پہنچا۔(1967 سے 2004 ء تک) بورسٹل جیل بہاولپور ایک جیل بھی ہے اور سکول بھی۔ اس زمانے میں پورے پنجاب سے کم عمر سزایافتہ قیدی آتے تھے۔ وہ میٹرک تک تو لازمی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ باقاعدہ کلاسیں لگتی تھیں ۔ اس کے بعد ایف اے‘ بی اے کی تعلیم بھی حاصل کرنے کیلئے انہیں ضروری سہولیات دی جاتی تھیں۔ ہم افسران ان لڑکوں کے ساتھ اندرون جیل بیڈمنٹن اور فٹ بال کھیلتے تھے۔ کافی لڑکے قید کاٹ رہے تھے۔ ان میں ایک لڑکا جو غیرارادی قتل کے جرم میں قید کاٹ رہا تھا وہ میٹرک تک پہنچ چکا تھا کہ میرا وہاں سے تبادلہ ہو گیا۔ 1980ء میں بطورڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرک جیل لاہور تعینات تھا۔ مجھے لاہور سے ملتان اچانک جانا پڑا۔ ان دنوں ایک چھوٹی سی ٹرین غزالہ ایکسپریس لاہور سے ملتان چلتی تھی۔ میری اچانک روانگی پر مجھے اس میں سپیشل سیٹیں دستیاب نہ ہو سکیں اور میں اپنی مسز کے ہمراہ اس گاڑی میں لاہور سے سوار ہوا۔ رش کافی تھا۔ کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہ مل پا رہی تھی۔ گاڑی چلنے کے تھوڑی دیر بعد ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اس ڈبے میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور مخاطب ہوا کہ آپ ترین صاحب۔ نام شاید وہ بھول گیا تھا۔ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر کہا آپ جیل کے آفیسر ہیں۔ میں نے پھر ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد اس نے کہا جب آپ ڈبے میں داخل ہوئے میں نے آپ کو پہچاننے کیلئے ذہن پر کافی زور دیا جب یقین ہو گیا میں غلطی پر نہیں ہوں تو اب آپ میری سیٹ پر چل کر بیٹھیں۔ میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دے رہا کہ میں وہاں سیٹ پر بیٹھوں اور آپ یہاں کھڑے رہیں۔ وہ بضد ہو گیا۔ میں نے جواب دیا کہ آپ اپنا تعارف کرائیں تو اس نے مجھے 1967 ء بورسٹل جیل بہاولپور کا حوالہ دیا میں فلاں لڑکا ہوں۔ آپ کے تبادلے کے بعد میں نے جیل سے ہی ایف اے کیا اور ہائی کورٹ سے بری ہو گیا تھا۔ایم اے کرنے کے بعد میں لیکچرار بن گیا اور فیصل آبادکی تحصیل کے کالج میں لیکچرار ہوں۔ کچھ دیر گپ شپ کی اور کہا آپ میری سیٹ پر چلیں‘ سواریاں اتریں گی تو جگہ بن جائے گی۔ میرے ساتھ چونکہ میری مسز تھی۔ میں نے اس کا انتہائی شکریہ ادا کیا اور کہادائیں بائیں سواریوں پر نظر رکھیں جونہی جگہ بنے تو پھر دیکھ لیں گے۔ بہرحال میں نے اسے واپس اپنی سیٹ پر جانے کی التجا کی اور وہ جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعدہمیں بھی قریب سیٹیں مل گئیں۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ جیل ایک سدھار گاہ ہے یا بگاڑ گاہ۔ بقول ایک شاعر
ہم لوگ گہنگار‘ خطا کار ہیں لیکن
جو لوگ مقدس ہیں وہ کیا نہیں کرتے