کبھی تو پاس ہو گے نا!
بھارتی ریاست بھوپال میں ایک باپ نے اپنے بیٹے کے امتحان میں فیل ہونے پر جشن منا کر سب کو حیران کر ڈالا۔اس تقریب میں آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور مہمانوں کی مٹھائیوں سے تواضح کی گئی۔ باپ کا کہنا تھا کہ امتحانات میں ناکامی پر شرمندگی سے بچنے کیلئے اکثر طلبا یا تو خودکشی جیسا بھیانک عمل کر گزرتے ہیں یا پھر ہمیشہ کے لئے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور اپنی ناکامی کو زندگی کی نہ بھولنے والی یادداشت بنا لیتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا ایسا کوئی غلط کام نہ کرے۔
پاکستانی طلباء حیران ہو رہے ہوں گے کہ اتنا دل گردے والا والد ان کی قسمت میں کیوں نہ آیا۔ جو انکی ناکامی پر بھی انہیں ہار پہناتا اور سینے سے لگا کر کہتا ’’بیٹا کوئی بات نہیں فیل ہو گئے ہو تو کیا ہوا‘ کبھی تو پاس ہو گے نا‘‘ اور ساتھ ہی ایک جمبو پارٹی کا انعقاد کرواتا‘ جس میں معاشرے کے معززین کو بلایا جاتا جو فیل ہونے کے فوائد اور جلدی پاس ہونے کے نقصانات سے سب کو آگاہ کرتے۔ کچھ ایسے سیاستدانوں کو بھی بلایا جاتا جو کئی انتخابات سے مسلسل ہاررہے ہیں اور اس عادت سے باز آنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کررہے۔ انہیں ہار سے محبت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس دن وہ جیت گئے اس دن سیاست کی ساری دلکشی جاتی رہے گی بالکل اسی طرح جیسے دونوں طرف سے اظہار محبت کے بعد محبت اپنی رعنائی کھو دیتی ہے اور شادی کے بعد قصہ پارینہ ہو جاتی ہے۔
فیل ہونے پر ان کی خوب پذیرائی ہوتی اور وہ اپنی کارکردگی پر فخر محسوس کرتے۔ وہ اپنی عزت افزائی پر اتنے خوش ہوتے کہ ناصرف وہ ہمیشہ طالب علم رہنا چاہتے بلکہ ہر سال ’’اعلیٰ اعزاز‘‘ کے ساتھ فیل ہونا بھی پسند کرتے۔ البتہ ہمارے طلباء یہ جانتے ہیں کہ ایسا محض خیالوں میں ہی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں رواج اس سے بہت الٹ ہے۔ پہلے تو فیل ہونے کا سوچ کر ہی ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ والد صاحب کے ہاتھوں جو درگت بنے گی وہ تو بن کے ہی رہے گی‘ معاشرے کے دوسرے لوگ بھی جینے نہیں دیں گے۔ کوئی کہے گا کہ اسے تو پہلے ہی پتہ تھا یہ لڑکا پاس نہیں ہو سکتا۔ کوئی کہے گا اسے سائنس ہی نہیں رکھنی چاہئے تھی۔ کوئی کہتا پھرے گا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کوئی ساری دوپہر کرکٹ کھیلے اور امتحان میں بھی پاس ہو جائے۔ غرضیکہ ہر ایک کی زبان پر ایک الگ رام کلا ہو گی۔ چاہے ان کی اپنی تعلیمی قابلیت اتنی ہو کہ اگر ان سے Parts of speech کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ Parts of body سنانا شروع کر دیں۔ کسی کے منہ سے دلاسے کاایک لفظ بھی نہیں نکلے گا۔ ہر کوئی دل کھول کر ملامت کرے گا جیسے کہ دنیا میں فیل ہونے کی روایت ہی آپ نے ڈالی ہے۔ پہلے تو کبھی کوئی فیل ہوا ہی نہیں تھا۔
اگر کوئی فیل ہو جائے اور اس کے ابا جان اسے صرف اتنا کہہ دیں ’’کوئی بات نہیں اگلی بار زیادہ محنت کرنا اور پاس ہو جانا‘‘ یہ اس کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ گھر پہنچنے سے پہلے خیالوں میں ہی اپنے ابا جان سے کئی بار مار کھا چکا ہو گا۔ منقول ہے کہ ایک لڑکا جو میٹرک کا امتحان دینے جا رہا تھا ۔اس کے ابا جان نے اسے بتایا بیٹا اگر تم پاس ہو جاؤ گے تو تمہیں ایک سترسی سی بائیک تحفے میں ملے گی۔ لیکن اگر تم فیل ہو گئے تو تمہیں ایک سو پچیس سی سی بائیک ملے گی‘‘ لڑکا حیران ہوا کہ فیل ہونے پر پاس ہونے سے بڑا تحفہ کیوں مل رہا ہے۔ اس نے ابا جان سے اس کی وجہ پوچھی۔ ابا جان بولے ’’اگر پاس ہو جاؤ گے تو تحفہ ملے گا۔ لیکن اگر فیل ہو جاؤ گے تو ایک سو پچیس سی سی بائیک پر دودھ گھروں میں سپلائی کرنے کا بزنس شروع کروگے‘‘
اب پاس فیل کا نظریہ تو بہت دور رہ گیا ہے۔ اب تو مارکس گیم ہے۔ بورڈ میں پوزیشن لو گے تو جو بھی ادارہ آپ کو تعلیم دے گا وہ ناصرف فیس بالکل معاف کردے گا بلکہ اور بھی بہت سی سہولیات دے گا۔ پچانوے فیصد مارکس پر سہولیات کچھ کم ہو جائیں گی۔ نوے فیصد مارکس پر سہولیات میں اور کمی ہو جائے گی اور جو پچاس سے پچھتر فیصد تک مارکس لے گا اسے پوری فیس دے کر ہی پڑھنا پڑے گا۔ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو پچھتر فیصد مارکس حاصل کرنے کے باوجود بھی ان میں اضافے کے لئے اگلے سال دوبارہ امتحانات دینا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ بہت پریشان کن ہے جو مارکس گیم کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ یہ گیم ہمارے طلباء کے مستقبل کیلئے زہر قاتل ہے۔