اسلامی تہوار اور ہمارے رویے
پاکستان خالصتاً اسلام کے نام پر حاصل ہوا تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تاکہ ایک اسلامی ریاست ہو جہاں اسلام کابول بالا ہو اور اسلامی طرز حکومت قائم ہو۔ جہاں مسلمانوں کو آزادی سے نہ صرف ترقی کے حصول بلکہ اسلامی طرز زندگی کی بلا خوف وخطر گزارنے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ کی خاص مہربانی سے ایک آزاد مملکت کا وجود قائم ہوا۔ یہ قائداعظم‘ علامہ اقبال اور دیگر نامور شخصیات کی قیادت تھی جنہوں نے ہندوؤں‘ سکھوں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور 14 اگست1947 ء کو پاکستان آزاد ہو گیا۔ بعد میں سکھوں اور ہندوؤں کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کا عمل شرو ع ہوا جو1960 ء کے بعد تک جاری رہا اور اب بھی غیر قانونی طور پر جاری ہے۔ اس کی وجہ سے صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں سے آباد شہر اب چند سالوں میں کئی سو گنا پھیل گئے۔ شہروں میں ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ 70 ء کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے باوجود اس قدر آبادی کیسے بڑھ گئی۔ ہمارے اداروں کی توجہ صرف افغان مہاجرین کی طرف ہے جبکہ بھارتی ‘ برمی‘ بنگالیوں کی طرف کیوں نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مکس ہو جاتے ہیں۔ صرف خوانچہ فروشوں‘ فروٹ ریڑھی والوں ‘ رکشہ‘ چنگ چی والوں کو ہی چیک کر لیں تو ان کا سرپیر کہیں سے نہیں ملتا۔ ان کی بولی 70 سالوں میں ذرا بھر نہیں بدلی۔ اس کی وجہ معلوم کی جائے۔ ایم کیو ایم کے لیڈروں نے اقرار کیا ہے کہ ہم ’’را‘‘ کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں 25 لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر انڈین لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ اب تعداد اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست میں مسلمانوں کے رویے غیر اسلامی اور بے رحمانہ‘ سفاکانہ کیوں ہیں؟ اسلامی تہواروں پر ہم اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے الٹا اشیاء خورد و نوش و دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں از خود کئی گنا اضافہ کر لیتے ہیں۔رمضان شریف میں فروٹ‘ سبزیوں‘ کریانہ کے سامان‘ کپڑے‘ جوتے مہنگے کر دیتے ہیں جس سے غریب مزدور‘ یتیم‘ بے سہارا‘ بیواؤں‘ معذوروں‘ بے روزگاروں کی قوت خرید سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرنے‘ روزہ داروں کی افطاری و سحری کروانے کا جذبہ رکھتے ہیں ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم بطور مسلمان خوفِ خدا اور آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے منافع خوری‘ جعل سازی ‘ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی سے گریز کریں یا کم سے کم تہواروں پر ہی ہمارے اندر یہ جذبہ پروان چڑھے کہ ہم روزہ داروں‘ ناداروں‘ غریبوں‘ یتیموں سے ہمدردی کرتے ہوئے مناسب منافع پر اشیاء فروخت کرنا شروع کر دیں ۔ یورپ میں کرسمس کے موقع پر تمام اشیاء کی قیمتوں میں 75 فیصد رعایت دی جاتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں لوگوں کے دلوں میں منافع خوری کا جذبہ انہیں مواقع پر ابھرتا ہے۔ وہ صدیوں کی بھوک مٹانے اور اپنی ہزاروں سال کی مزید عمر پانے کی امید پر لوگوں کو خوب لوٹتے ہیں۔ فروٹ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ سبزیاں‘ کریانہ کا سامان مہنگا ہو گیا ہے۔ کپڑے ‘ جوتے کئی گنا مہنگے کر دئے گئے ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے جسے سخت سزا دی جائے تو دوسروں کو عبرت ہو۔نرخ نامہ پر عمل کون کروائے۔ کپڑے‘ جوتے کنٹرول اور فکس ریٹ پر کیسے دستیاب ہوں؟فرنیچر‘ کراکری‘ فروٹس ‘ سبزیوں کو کس طرح اصل قیمت پر فروخت کروایا جائے۔ اس کے لئے ریڑھیوں‘ خوانچہ فروشوں اور کپڑے کی دکانوں پر ریٹ لسٹ ہونی چاہئے اور مارکیٹ کمیٹیوں کو فعال کیا جائے۔ ان کی اپنی فورس ہو۔ محکمہ لیبر اور دیگر اداروں کو فعال کیا جائے۔ خوانچہ فروش اور ریڑھیوں پر ان کی تصویر نام لائسنس نمبر فون نمبر کی پلیٹ لگی ہو اور شناختی کارڈ نمبر درج ہو تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ شخص اس خوانچہ یا ریڑھی کا مالک ہے اور یہ اس علاقہ یا اس چوک پر فروخت کرتا ہے۔ حکومتی سطح پر رمضان المبارک‘ عیدالاضحی‘ شب برات‘ محرم الحرام‘ یوم آزادی پر حکومت ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے سبسڈی نہیں بلکہ اشیاء کی قیمتوں میں 75 فیصد تک کمی کا اعلان کر دے تاکہ اسلامی تہوار سب کے لئے خوشی کا باعث ہو۔