مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ’’ کائونٹ ڈائون ‘‘ شروع ہو گیا ہے آج سے 10روز بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئینی مدت مکمل ہونے پر خود بخود ختم ہو جائے گی ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی تجویز پر 31مئی2018ء سے ایک روز قبل قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ’’ 31مئی2018ء کی شب 12بجے سے ایک منٹ قبل بھی حکومت ختم نہیں کی جائے گی ‘‘31مئی2018ء کو قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں نگران حکومت کو 60روز میں انتخابات کرانا ہوتے ہیں جبکہ قبل ازوقت انتخابات کرانے کی صورت میں نگران حکومت کو انتخابات کرانے کے لئے 90 روز کی مدت مل جاتی ہے لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عام انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومت کو 60 روز سے ایک دن بھی زائد نہیں دینا چاہتے۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ عام انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے زمین پر اتر آئی ہے اور ہر روز دو تین ’’الیکٹیبل‘‘ہانک کر تحریک انصاف کے پاس بھجوا رہی ہے۔ اب تک جن 10،15 ارکان قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کو اپنی نئی ’’پنا ہ گاہ‘‘ بنایا ہے ان میں سے بیشتر ’’سیاسی وفاداری‘‘ بدلنا ’’سیاسی جرم‘‘ نہیں سمجھتے، کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ڈرا دھمکا کر مسلم لیگ(ن) چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ سر دست مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی اکثریت میاں نوازشریف کی قیادت میں اپنی جگہ پر ڈٹی ہوئی ہے انہیں کوئی خوف یا دبائو پارٹی چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ نگران حکومت قائم ہونے کے بعد صورت حال واضح ہو جائے گی کہ پارٹی کے ساتھ کتنے ارکان کھڑے رہتے ہیں اب تک بیشتر ارکان کو کوئی ترغیب یا دبائو متاثر نہیں کر سکا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31مئی2018ء تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس عرصہ کے دوران جہاں سرکاری بزنس نمٹایا جائے گا وہاں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی30ویں آئینی ترمیم منظور کرائی جائے گی اس سلسلے میں قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بھی فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دے دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے معاملہ پر سیاسی و عسکری قیادت ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہے۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے میں دو اتحادی جماعتوں جمعیت علما اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مدد سے آئینی ترمیم منظور کرا سکتی ہے فی الحال پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف آئینی ترمیم کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں لیکن ان کو جوں ہی ’’اوپر‘‘ سے اشارہ ملا تو دوڑ کر مسلم لیگ(ن) کے ساتھ آکھڑی ہو جائیں گی۔ احتساب عدالت میں مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت تیز رفتاری سے جاری ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ احتساب عدالت اپنا کام 9 جون 2018ء تک نمٹانا چاہتی ہے لیکن قانون کے تقاضے پورے کئے بغیر میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ اب احتساب عدالت نے127سوالات تھما دئیے ہیں میاں نواز شریف پچھلے 7،8 ماہ کے دوران احتساب عدالت میں 70سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں اب نئے مقدمات قائم کرنے کے لئے نیب نے تفتیش کے لئے طلب کر لیا ہے مقدمات کی بھرمار کے باوجود میاں نوازشریف کا ’’مورال ‘‘ بلند ہے وہ پورے قد کے ساتھ ’’جبر‘‘ کی قوتوں کے سامنے کھڑے ہیں نواز شریف کے سیاسی مخالفین بھی اس بات پر حیران و ششدر ہیں کہ وہ کسی صورت بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں لیکن میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین کو انہیں ’’اڈیالہ جیل ‘‘ بھجوانے کی جلدی ہے ’’ کپتان‘‘ تو کئی بار میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات کے فیصلے سنا چکے ہیں انہوں نے تازہ ترین فیصلہ سنایا ہے کہ وہ جون2018ء کے اوائل میں میاں نوازشریف کو جیل میں دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں میاں نوازشریف کا ’’سیاسی مستقبل‘‘ موضوع گفتگو ہے ہر ’’سیاسی محفل اور بیٹھک‘‘ میں میاں نوازشریف کا ’’متنازعہ انٹرویو اور پریس ٹاک‘‘ زیر بحث ہے۔ میاں نوازشریف کا 12 مئی 2018ء کو روزنامہ ڈان میں متنازعہ انٹرویو کیا شائع ہوا گویا پورے ملک میں ’’آگ‘‘ لگ گئی پورے ملک میں میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین اپنی ’’تلواریں‘‘ میان سے نکال کر باہر نکل آئے انہوں نے میاں نوازشریف پر ’’غداری‘‘ کے فتوئوں کی بھر مار کر دی ہے۔ میں دعوے سے یہ بات کہتا ہوں میاں نوازشریف پر تنقید کے تیر برسانے والوں کی اکثریت نے متنازعہ انٹرویو پڑھا ہی نہیں، اس لئے ہر کوئی انٹرویو سے اپنا مطلب نکال رہا ہے میاں نوازشریف نے یہ انٹرویو اسی صحافی سرل المیڈا کو دیا ہے جس کی قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس کے حوالے سے اندرونی کہانی کی اشاعت نے ڈان لیکس کو جنم دیا تھا۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد سول ملٹری تعلقات میں شدید نوعیت کا تنائو آ گیا تھا۔ اب کی بار میاں نوازشریف نے سرل المیڈا کو ملتان میں مدعو کیا اور وہاں انھوں نے متنازعہ انٹرویو دیا جو تاحال پورے ملک میں زیر بحث ہے۔ اس انٹرویو میں میاں نواز شریف سے پوچھا گیا کہ انہیں پبلک آفس سے نکالنے کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے اس سوال کا براہ راست جواب دینے کی بجائے گفتگو کا رخ خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی امور کی طرف موڑ دیا۔ میاں صاحب نے کہا کہ ’’ہم نے خود کو تنہا کر لیا ہے۔ قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جا رہا۔ اس کے برعکس افغانستان کا بیانیہ قبول کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس معاملہ کو ضرور دیکھنا ہو گا‘‘۔گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’شدت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں (militant organizations are active)۔کیا ہمیں، انہیں اجازت دینی چاہیے کہ وہ سرحد عبور کر کے ممبئی میں ایک سو پچاس افراد کو ہلاک کر دیں۔ اس معاملہ کو مجھ پر واضح کریں۔ ہم مقدمہ کیوں مکمل نہیں کر سکے؟ اس وقت میاں نوازشریف اپنے اس متنازعہ انٹرویو کی اشاعت کی وجہ سے ’’گرم پانیوں‘‘ میں ہیں۔ ان کی پارٹی کے کچھ ارکان کا سیاسی ایمان و یقین متزلزل بھی ہوا تاہم مسلم لیگی ارکان اسمبلی کی اکثریت میاں نوازشریف کے ’’سیاسی بیانیہ‘‘ کے ساتھ انتخابی معرکہ میں اترنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف جہاندیدہ سیاست دان ہیں وہ اپنے ’’مفاہمت کے بیانیے‘‘ کے ساتھ عام انتخابات میں پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں لیکن پارٹی میں موجود’’عقاب صفت‘‘ ان کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرتے رہتے ہیں جس کے باعث ان کا ’’مفاہمتی ایجنڈا‘‘ بری طرح متاثر ہو رہا ہے گذشتہ ہفتہ کے اواخر میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں میاں شہباز شریف نے بھی خصوصی دعوت پر شرکت کی اجلاس میں وہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کا حالیہ انٹرویو کرانے میں ’’سہولت کار‘‘ کا کر دار ادا کرنے والے پر برس پڑے اور کہا کہ ’’جس نے بھی یہ انٹرویو کروایا ہے اس نے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیادتی کی ہے بلکہ وہ نوازشریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ قبل ازیں سرل المیڈا ہی کی وجہ سے ڈان لیکس کا تنازعہ کھڑا ہوا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ( ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بعض ارکان نے پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان کی عدم موجودگی کا سوال اٹھایا اور کہا کہ’’ چوہدری نثار علی خان کے بغیر پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نامکمل ہے ،مسلم لیگ ن کو بچانا ہے تو پھرچودھری نثار علی خان کو واپس لایا جائے اگرچہ خواجہ سعد رفیق اور آصف کرمانی (کزن) کے درمیان
پنجاب ہائوس میں میاں نوازشریف کی موجودگی میں ہونے والی تلخ کلامی کی تردید کر دی ہے لیکن تاحال سیاسی حلقوں میں انٹرویو کے حوالے سے تلخ کلامی کی باز گشت سنی جا رہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں میڈیا میں آنے والی رپورٹس کو گمراہ کن اور غلط قرار دیا گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے اس معاملے پر ’’مٹی‘‘ ڈالنے کی کوشش کی اور میاں نوازشریف کے انٹرویو کا بھرپور دفاع کیا لیکن میاں نوازشریف نے بھی قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے کو مسترد کردیا ہے اورکہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ افسوس ناک، تکلیف دہ اور غلط فہمی پر مبنی ہے میاں نوازشریف اپنے انٹرویو کے مندرجات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ میاں نوازشریف پنجاب کے پہلے لیڈر ہیں جو ’’جبر‘‘ کی قوتوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں انہوں نے پچھلے دنوں مسلم لیگی رہنمائوں کے اجلاس میں ایک لطیفہ سنایا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ راجن پور کا ایس ایس پی پولیس اپنے ماتحت سپاہی کو سزا دینا چاہتا تھا توسپاہی نے کہا کہ ’’راجن پور سے آگے کوئی مقام ہے اور سپاہی سے کم رینک نہیں‘‘ اس سے زیادہ کیا سزا دیں گے۔ دراصل میاں نوازشریف کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر احتساب عدالت میں لا کھڑا کر دیا گیا ہے جیل بھجوانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اس سے زیادہ کیا سزا دی جا سکتی ہے۔ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر یہ کہہ رہا ہوں میاں نوازشریف کوجتنا دیوار سے لگایا جائے گا اسی قدر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا اس لئے میاں نوازشریف کو دیوار سے لگانے کی کوششں ترک کر دی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر لٹکا دینے کے باوجود نصف صدی سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں بھلا ہو آصف علی زرداری کا۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا ہی ’’تیاپانچا‘‘ کر دیا۔ میاں نواز شریف اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں جیل جانے کے بعد ان کا ’’سیاسی مستقبل‘‘ تابناک نظر آرہا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024