رمضان سرکس اور ماہ مبارک کا تقدس!
عدلیہ کا غازی علم دین ‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایک بار پھر حق گوئی اورعمل کا پرچم لے کرمیدان میں ا±ترا اور شعائر اسلام، ماہ مقدس رمضان المبارک اور بے بس ناظرین کے حق کا پہرہ دینے میں سرخرو ٹھہرا۔ عرب دورجاہلیت کا ‘عکاظ میلہ’ آج ٹی وی سکرینوں پر نئے انداز سے برپا تھا، اس مرد قلندر نے اس رمضان سرکس کو رکوا کر قوم پر احسان کیا اور اپنے لئے دعاﺅں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کرالیا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر اسلام کے روشن چہرے، تعلیمات اور شعائر کے علاوہ رحمتوں، برکتوں اور ذکرواذکار کے مہینے کو سرمایہ کمانے کا ذریعہ بنانے والوں کے ہاں کہرام مچا ہے۔ کروڑوں روپے تجوریوں میں بھرنے والوں کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ’حرکت‘ پسند نہیں آئی۔ لیکن اس بار ٹی وی سکرینوں پر سرکس، ناچ گانے اور بدتمیزی کا طوفان برپا نہ ہونے سے رمضان کے مہینے کی روایتی تابندگی گویا لوٹ آئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ماہ مقدس میں ٹیلی ویڑن نشریات پر فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست ایک بظاہر مذہبی چینل نے اپیل دائر کی ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے کہ فیصلے سے جان چھوٹ جائے۔ عوام اس فیصلہ پر خوش ہیں اور میڈیا پر اس فیصلہ کے ’مِسنگ‘ ہونے پر سوشل میڈیا کاسہارا لیاجارہا ہے۔ ا±ن ججز اور وکلاءکے لئے مساجد میں دعائیں کرائی جارہی ہیں جنہوں نے اسے “رمضان سرکس“عکاظ کا میلہ بنانے کے خلاف آواز بلند کی۔ اپیلیں کی جارہی ہں کہ ان نیک نام وکلاءاور جج صاحبان کے بارے دعائیں ہر ایک تک پہنچائی جائے۔نظرثانی کی اپیل پر فیصلہ آج متوقع ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک بارپھر نازک اور مشکل معاملے میں ہاتھ ڈالا وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر ڈَٹ کر سرمایہ اور میڈیا کی دوآتشہ طاقت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے فیصلہ میں انہوں نے یاد دلایا کہ ’پاکستان اسلامی نظریاتی ریاست ہے دستور ‘انفرادی یا اجتماعی طورپرکسی شہری کو ایسی کسی سرگرمی کی اجازت نہیں جو اسلام کے وقار، ساکھ، پاکستان کے دفاع اورسلامتی، ممالک جن سے پاکستان کے دوستانہ تعلقات استوار ہیں،تہذیب واخلاق کے خلاف ہو۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ماحول کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ہر طرح کی بے حیائی، فحاشی اسلامی تعلیمات کے منافی اور دستور پاکستان کے برعکس ہے۔ انفرادی یا اجتماعی، الیکڑانک یا پرنٹ میڈیا پر اسلام اور دستور کے منافی سرگرمیوں کو روکنا قانون نافذکرنے والے تمام اداروں یا نظم میں لانے کی ذمہ دار تنظیموں کا قانونی فرض ہے۔‘ اطلاعات وداخلہ کی وزارتوں اور پیمرا کو یہ امر یقینی بنانے کا حکم دیاگیا۔
سرمایہ کی فراوانی میں بندش پر نوحہ کناں دیکھیں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کن اشتہارات، ڈراموں، فلموں یا غیرملکی بالخصوص بھارتی فلموں اور ڈراموں پر مکمل پابندی عائد کی ہے۔ اطلاعات، داخلہ اور پیمرا حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جو قانون کے مطابق دس فیصد غیرملکی مواد کی منظوری دے گی۔ اس کے بعد ہی کوئی غیرملکی مواد نشر ہوپائے گا۔ کمیٹی یقینی بنائے گی کہ مجوزہ مواد اسلام اور دستور کے منافی نہ ہو۔ قانون، ضابطہ اخلاق اور اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے برعکس نہ ہو۔خلاف ورزی کرنے والے چینل کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی۔ فیصلہ کی رو سے رمضان المبارک کے مہینے میں لاٹری، جوا اور حج و عمرہ ٹکٹوں کے انعامات بانٹنے والاکوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا۔ نیلام گھر سرکس کی طرح کے پروگرام بھی نشر یا ریکارڈ نہیں ہوں گے۔ ماہ مقدس کے احترام کے منافی کوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا۔ قرآن پاک کے اس مہینے میں قرآن کے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ تمام ٹی وی چینلز کو حکم دیاگیا کہ پانچ وقت اذان نشر کریں۔
مغرب کی اذان سے کم از کم پانچ منٹ یعنی افطاری سے قبل اشتہارات جاری نہیں ہوں گے بلکہ دورد شریف اور پاکستان میں اتحاد، امن، سلامتی، شہریوں کی فلاح وبہبود کے علاوہ توبہ واستغفار، دعاﺅں کی قبولیت کے لئے دعا نشر کی جائے گی۔ ٹی وی چینلز پر کوئی میزبان، مہمان یا کوئی بھی آنے والا فرد احترام رمضان کے منافی کوئی لفظ کہے گا نہ ہی ایسی حرکت کرے گا۔ عدالت نے ان ہدایات پر عمل درآمد کی رپورٹ متعلقہ کمیٹی کو دس روز میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالتی فیصلہ میں بتایاگیا کہ ’گزشتہ چند سال کے دوران ماہ
رمضان میں پیش ہونے والے پروگراموں کی وجہ سے جہاں چینلز کی ریٹنگ میں خاطرخواہ اضافہ ہوا وہیں ناظرین کی ایک کثیر تعداد ان پروگراموں میں پیش کئے جانے والے کچھ مواد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ ناظرین کی رائے میں ٹی وی چینلز ریٹنگ کے حصول کے لئے اچھوتے اندازاپنانے کی دوڑ میں غیر مہذب حرکتیں کرتے ہوئے ایسے ایسے پروگرام تشکیل دیتے ہیں جو رمضان المبارک کے تقدس کے منافی ہیں اور ناظرین میں ہیجان برپا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے پروگراموں سے نہ صرف سماجی، اخلاق، مذہبی اقدار کی دھجیاں ا±ڑا دی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات فرقہ واریت کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو معاشرے میں انتشار اور فساد کو ہوا دینے کا سبب بنتا ہے۔‘
رمضان کی ہر شب کی بے پناہ فضیلت ہے اور عبادات کے اجر میں اضافہ کی ضمانت، اس لئے قیمتی لمحات کو کھیل تماشا، ذہنی عیاشی اور سجاوٹ میں ضائع نہ کیاجائے۔ مخصوص اوقات کار کے لئے معلوماتی، فہمِ دین اور اخوت وبھائی چارہ کو فروغ دینے کی سعی کی جائے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ فحش، بیہودہ، غیرمہذب اور اخلاق سے گرے ہوئے پروگرام اللہ کی خوشنودی کے بجائے اس کے قہرو غضب کا سبب بنتے ہیں۔‘
فنی اعتبار سے نہایت قابل غور پہلو کی عدالت نے نشاندہی کی کہ ’ماہ رمضان میں نشر کئے جانے والے پروگرام بنا کسی سکرپٹ یا ادارہ جاتی نگرانی کے محض زیادہ ریٹنگ یا مالی فوائد کے حصول کے لئے تشکیل دئیے اور نشر کئے جاتے ہیں۔‘ فیصلہ میں کہاگیا کہ ’ناظرین کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات اور مشوروں کے نتیجے میں تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ رمضان ٹرانسمیشن کے دوران ان امور کا خاص خیال رکھاجائے۔عدالت نے راہنمائی فراہم کی ہے کہ پروگراموں کی منصوبہ بندی کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانا یا اس کے بارے میں بنیادی معلومات میں درست اضافہ ہوناچاہئے نہ کہ صرف ریٹنگ کا حصول مدنظر ہو۔دوران پروگرام انسانی حقوق اور شخصی وقار کا خیال رکھاجائے۔ دوران پروگرام شرکاءکو ڈانس، ورزش، گانے سنانے اور ا±لٹے سیدھے کام کرنے پر نہ اکسایا جائے۔ شرکائ کے درمیان انعامات تقسیم کرتے ہوئے ہتک آمیز برتاﺅنہ کیاجائے۔رمضان کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بے جا اسراف اور کمرشل ازم کے فروغ ،غیراخلاقی ، غیرمعیاری گفتگو اورپھکڑ پن سے پرہیز کرنے اور ایسے لوگوں کو دین سے متعلق گفتگوکے لئے مدعو کرنے کا حکم دیاگیا جو دین کی روح سے واقف ہوں اور مستند علم رکھتے ہوں۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کی غربت اور مجبوریوں کے نام پر ا±ن کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے۔ مبارک مہینہ کی مناسبت سے پروگرام کے موضوعات کا چناﺅکیاجائے۔ مہذب اور شائستہ زبان استعمال کرنے کے علاوہ پروگراموں، اشتہارات میں ملبوسات کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ رمضان ٹرانسمیشن اور معمول کی نشریات میں واضح فرق ہونا چاہئے۔ عدالت نے پروگرامز کے دوران لاوارث بچوں کو بے اولاد افراد کے سپرد کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
رمضان المبارک کو تین عشروں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ آخری عشرہ کی خاص اہمیت اور مقام ہے کہ اس میں ہزار مہینوں سے افضل رات آتی ہے۔ اس عشرہ کے احترام کے لئے عدالت نے خصوصی حکم دیتے ہوے قرار دیا کہ ’رمضان المبارک میں تفریحی، کوئز پروگرامز کی نشریات کی اجازت رات نو بجے کے بعد ہوگی اور آخری عشرہ میں ایسے پروگراموں کو نشرکرنے پر مکمل طورپر پابندہوگی۔تمام ٹی وی چینلز کو سپریم کورٹ کے نافذ کردہ الیکڑانک میڈیا ضابطہ اخلاق 2015ئ پر پورے خلوص اور ذمہ داری سے عمل درآمد یقینی بنانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے موضوعات پر گفتگوسے اجتناب کی ہدایت کی گئی۔ ٹی وی چینلز کوبراہ راست پروگرام نشر کرتے ہوئے موثر تاخیری نظام نصب وفعال کرنے، ایڈیٹوریل کنٹرول مضبوط بنانے اور ادارہ جاتی نگران کمیٹی کو موثروفعال بنانے کی ہدایت کی گئی۔ سٹلائیٹ ٹی وی چینلز رمضان المبارک کی نشریات سے متعلق مفاد عامہ کے پیغامات نشرکرنے کے علاوہ ناظرین کو ترغیب دیں گے کہ وہ رمضان نشریات سے متعلق تجاویز، شکایات یا آرائ پیمراکو اس کے ٹال فری نمبر، فیس بک، ٹویٹر پر بھجواسکیں۔ عدلیہ اس وقت قوم کے حقوق کی پہریدار بن چکی ہے۔ وہ ان کے خزانے کی چوکیداری کررہی ہے۔ نجی مافیاز کے ہاتھوں ل±ٹنے سے عوام کو بچانے کے لئے جہاد کررہی ہے۔ باالفاظ دیگر آگ سے کھیل رہی ہے۔ موسم گرما میں والدین کو لوٹتے سکولوں پر گرفت سے لے کر معاشرے کی اخلاقی ونظریاتی سمت کی درستگی تک اعلی عدلیہ قوم کی امیدوں کا سہارا بن چکی ہے۔ محسوس ہوتاہے کہ یہ آخری فصیل ہے جو گری تو پھر شاید پیچھے کچھ نہ بچے۔ فعال عدلیہ’ بے کس ‘بے بس اور بے نوا پاکستانیوں کا آخری سہارا ہے وگرنہ حکومت کو تو اپنے مالیاتی اور سیاسی مفادات سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔حرف آخر یہ کہ شاطر امریکی توقعات سے بہت پہلے کھل کر سامنے آگئے ہیں اور بڑے دھڑلے سے جناب نواز شریف کے ممبئی حملوں کے متنازعہ بیان کو بنیاد بنا کر بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے غیر ریاستی عناصر کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق بیان کے حوالے سے کہا کہ پاکستان فیصلہ کن موڑپر کھڑاہے ‘اب اس کو فیصلے کرنا ہو گا اور ہمیں امید ہے کہ وہ خطے کی حفاظت میں ہمارا شراکت دار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ علاقائی سکیورٹی سے متعلق پاکستان یقیناً مزید بہت کچھ کر سکتا ہے۔