پیر ‘ 5 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 21 مئی 2018ء
شہزادہ ہیری کی میگھن سے شادی کی خوبصورت تقریب
پریوں کی شہزادوں ا ور شہزادیوں کی شادی کی بے شمار کہانیاں ہم سب بچپن سے سُنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ طلسمی دُنیا ہو یا جادونگری، سات سمندر پار کی داستان ہو یا کوہ قاف کے محلات کی کہانیاں گھوڑے پر سواری ایک شہزادہ آتا ہے شہزادی کو جن یا جادوگر کی قید سے چھڑا کر اپنے ملک لے جاتا ہے۔ جہاں بالآخر ان دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے۔ محل کے باہر لوگ جمع ہوتے ہیں جو خوشی سے ناچتے گاتے ہیں۔ شہزادی خوبصورت پریوں جیسا سفید لباس پہنے جس پر ہیرے موتی لگے ہوتے ہیں سر پر سونے کا تاج جمائے اپنے شہزادے کے ساتھ آتی ہے اور ہر طرف مبارک سلامت کے نعرے گونجتے ہیں۔ الغرض اس طرح پریوں کی یا شہزادوں کی کہانیاں ختم ہوتی ہیں۔ اب دنیا میں نہ بادشاہ رہے نہ پریاں، بڑی بوڑھیاں سچ کہا کرتی تھیں، ہمارا تمہارا اللہ بادشاہ۔ سدا بادشاہی اسی کی رہے گی۔
1981ءمیں ایک ایسی ہی پریوں کی شہزادی ڈیانا کی شادی برطانیہ کے ولی عہد شہزادے سے ہوئی جسے دُنیا بھر میں دیکھا گیا۔ آج 2018ءمیں ڈیانا کے چھوٹے بیٹے پرنس ہیری کی شادی کی تقریب نے اس شادی کی یادیں تازہ کر دیں۔ اب غالباً 25 یا 30 سال بعد برطانیہ کے شاہی محل میں شادی کی ایسی تقریب ہوگی جب شہزادہ ولیم کے بڑے بیٹے کی باری آئے گی ورنہ بادشاہتیں تو اب ختم ہو چکی یا ہو رہی ہیں جو ہیں ان میں تاج برطانیہ والی شان کہاں۔ تاش کے 4 بادشاہوں کی طرح لگتا ہے صرف یہی پانچویں بادشاہت ہے جو باقی بچ پائے گی۔
٭........٭........٭
پیپلز پارٹی نے ٹکٹ کے لئے درخواست
کی تاریخ میں توسیع کر دی
اب یہ وقت بھی آنا تھا ا س جماعت پر جس کے بارے میں کبھی مشہور تھا کہ اینٹ اُٹھاﺅ تو اس کے نیچے سے بھی پیپلز پارٹی نکلے گی۔ اور یہ بھی کہ یہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ اس جماعت کا آج یہ عالم ہے کہ اسے اپنے ٹکٹ کے لئے تاریخ میں توسیع کرنا پڑ رہی ہے کہ شاید اس طرح کوئی بھولا بھٹکا امیدوار جو ہر طرف سے مایوس ہوا ہو آ کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لے لے۔ کہاں وہ گرمی بازار اور کہاں یہ کساد بازاری۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ گھر کی کھلی کھڑکی سے صرف گردو غبار اور گرم ہوا ہی دفتر میں داخل ہو رہی ہے۔ اور عملہ مکھیاں مارنے کے ساتھ ”اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا“ کا راگ بھی الاپ رہا ہے۔ اگر یہی کساد بازاری رہی تو آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی والوں کو امیدوار پورے کرنا مشکل ہو گا۔ اس لئے بلاول زرداری آج کل درگاہوں پر حاضری دے کر وہاں کے گدی نشینوں سے مل کر دعائیں کرا رہے ہیں۔ کیا معلوم کوئی تعویز برائے فتح بھی کراتے ہوں۔ وظیفہ و ہ پڑھ نہیں سکتے کیونکہ ان کی تو اردو بہت کمزور ہے و ہ بھلا عربی یا فارسی کیا پڑھیں گے۔ اب الیکشن میں و یسے بھی دو ماہ ہی رہ گئے ہیں باقی جماعتوں میں کساد بازاری تو نہیں مگر ٹکٹوں کی قیمت فروخت پر اڑچن کے باعث فی الحال وہ بھی مول تول کر رہی ہیں۔ جس کے بعد مناسب قیمت دینے والوں کو ٹکٹ دی جائے گی اور باقی شور مچاتے آزاد امیدوار بن کر الیکشن لڑیں گے۔
٭........٭........٭
سندھ اسمبلی میں جوتا دکھانے پر سپیکر نے نصرت سحر کو ایوان سے نکلوا دیا
جاتے جاتے ہماری صوبائی اسمبلیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نجانے کن حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی گزشتہ دنوں ہنگامہ آرائی ہوئی ارکان ا سمبلی معزز ہونے کا طرہ ایک طرف رکھ کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ گالیوں کا خوب تبادلہ ہوا۔ چونکہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بزرگ اور ناتواں ہیں وہ صرف آرڈر آرڈر پکارتے رہ گئے۔ باقی ارکان اسمبلی نے درمیان میں کود کر جنگ بندی کرائی۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان اسمبلی میں بھی ایسا منظر سامنے آیا جہاں حزب مخالف کے ارکان اسمبلی نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراﺅ کر لیا اور خوب نعرے بازی کی آوازے کسے۔ جس پر سپیکر صاحبہ نے 4 حملہ آور ارکان اسمبلی کے ایوان میں داخلے پر ہی پابندی لگا دی ہے۔ اب نیا تماشہ سندھ اسمبلی میں لگا ہے جہاں معزز ایوان میں خاتون رکن اسمبلی نصرت سحر نے خالصتاً گھریلو عورتوں والی لڑائی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر شہلا رضا جو سپیکر کے فرائض انجام د ے رہی تھیں کی طرف اپنا پاﺅں اٹھا کر انہیں اپنا جوتا دکھلایا۔ جس پر انہوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نصرت سحر کو ایوان سے باہر نکلوا دیا۔ اب ہو سکتا ہے نصرت سحر کہہ دیں کہ میں اپنا نیا جوتا دکھا رہی تھی کہ کتنا اچھا ہے۔ بلوچستان کے ممبران اسمبلی کہہ سکیں ہم الوداعی نغمہ گا رہے تھے۔ پنجاب اسمبلی والے کہہ سکتے ہیں کہ آخری میلہ لوٹ رہے تھے۔ اب لے دے کر خیبر پی کے اسمبلی رہ گئی ہے۔ دیکھتے ہیں وہاں کون سا گرما گرم پروگرام چلتا ہے یا یونہی مریل سا بے رونق آخری سیکشن صرف فوٹو سیشن تک ہی محدود رہے گا....
٭........٭........٭
کرنل جوزف کی امریکہ روانگی سے قبل دیت ادا کی گئی۔ ورثا کی تردید
یہ عجب کہانی ہے حکومت کہہ رہی ہے کہ کرنل جوزف کی گاڑی تلے کچلے گئے پاکستانی شہری کے گھر والوں کو دیت کی رقم مبلغ 50 لاکھ روپے ادا کر دی ہے۔ ورثا حیران و پریشان ہیں کہ دیت کس کو دی کس نے دی اور کس نے لی ہے۔ مرحوم کے اہلخانہ نے کھل کر رقم کی وصولی کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی رقم نہیں لی۔ یہ تو تھا تنازعہ رقم کی ادائیگی اور وصولی کا۔ اس سے بھی الگ ایک اور داستان بھی گردش کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دیت کے طور پر امریکی دو لاکھ ڈالر دے کر گئے ہیں اپنے بندے مار بندے کو بچا کر لے جانے کے عوض۔ اب اگر یہ داستان ہوش ربا درست ہے تو پھر نیب کو چاہئے کہ و ہ فوری طور پر ایکشن لے اور پتہ لگائے کہ یہ رقم کس نے وصول کی اور کون ڈکار گیا۔ گھر والے تو رقم کی وصولی سے انکاری ہیں۔ آخر کوئی تو ہو گا جس نے اتنے امریکی ڈالر وصول کئے اور کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ حیرت کی بات ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں تو ورثا کو باقاعدہ منہ مانگی دیت بمعہ مراعات دی گئیں تو یہاں یہ معاملہ بالا بالا خاموشی کے ساتھ کیسے طے ہو گیا۔ دیت کی رقم پر صرف اور صرف ورثا کا حق ہے۔ بیٹا ان کا گیا ہے کوئی اور یہ دیت کیسے ہڑپ کر سکتا ہے۔ اگر امریکہ نے دیت نہیں دی تو بھی معاملہ کھل کر سامنے آنا چاہئے کہ یہ خون ناحق کیوں رائیگاں جانے دیا گیا اور کس نے جانے دیا۔
٭........٭........٭