رمضان اور تحصیل تقویٰ(۴)
نماز کا قیام اہل تقوی کا دوسرا نمایاں وصف ہے۔ نماز اللہ کا ایک ایسا ذکر ہے جو مومنین کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کے اپنے فضائل و محاسن ہیںیا آج کی مصروف پسندیدہ اصطلاح میں نماز کا ایک اپنا ”فلسفہ“ ہے۔ یہاں خاص طور پر یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ”نماز کو قائم کرنا“ اہل تقویٰ کا نشان امتیاز بیان کیا گیا ہے نہ کہ محض پڑھنا۔
نماز قائم ہوتی ہے تو اس میںوہ شان احسان پیدا ہو جاتی ہے جس کو حدیث پاک میں ”ان تعبداﷲ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے پروردگار کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے (اپنے سامنے) دیکھ رہے ہو۔
اگر یہ حضور ممکن نہیں تو یہ ادراک تو راسخ ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ نماز میں جوحضور و سرور پیدا نہیں ہو تا۔ اس کی من جملہ وجوہات میں سے ایک شکم سیری بھی ہے۔ ”بھوک اللہ کا راز ہے اور اسے صرف عارفین پر ہی آشکار کیا جاتا ہے“ (کشف المحجوب) حالت صوم میں اگر سحری اور افطاری کو قدرے اعتدال سے برت لیا جائے تو بھوک کی لذت اور اسرار سے کچھ لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ رمضان میں مومن کا جو رزق وسیع ہو جاتا اس سے مراد ہم لوگوں کے نزدیک صرف سموسے پکوڑے اور کچوریاں ہیں۔ امام غزالی نے کس کرب سے اظہار خیال کیا ہے کہ جب ہمارا نفس بھوک ، پیاس کو ذرا سہنے کا عادی ہو جاتا ہے تو ہم پر تکلف افطاری سے اسے خوش خوراکی کا مزید عادی بنا لیتے ہیں۔
وہ جو کہا گیا ہے کہ اہل صوم کے لیے دوراحتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری آخرت میں اللہ کے دیدار کی صورت میں، کیا وہ ان حجابات خورد و نوش میں ہیں؟ اگر ہمارا دھیان اس سمت میں چلا جائے، ہم رمضان کی مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے معمولات کی معنویت کو محسوس کریں اور سحر وافطار کو مسنون دائرے میں رکھ لیں تو شاید ہماری نمازیں بھی ”اقامت“ کی معنویت سے آشنا ہو سکیں۔
رمضان میں خوراک کو اعتدال پر رکھنے کا موقع تو ہمیں ملتا ہی ہے۔ ماحول میں ایک روحانیت در آتی ہے، سحری کی صورت میں ہمارے لیے تہجد کا موقع ہے ، تراویح کی سنت معمول کے سجدوں میں اضافے کا باعث ہے، ماحول کا رجحان نماز باجماعت کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے،شیطان مقید ہوتا ہے۔
ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور نماز کی کیفیت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اس کے راستے میں خرچ کرنا اہل تقوی کا تیسرا نمایاں وصف ہے۔ اگرچہ رزق کی معنویت بڑی وسیع ہے اور یہ ظاہری ، باطنی اورمعنوی نعمتوں کو محیط ہے۔ رمضان المبارک کا ماحول کیفیت جودوسخا میں اضافے کا باعث ہے۔ خود پروردگار نے ہر عمل کا اجر بڑھا دیا ہے۔ نفل پڑھنے پر فرض کا ثواب ہے، فرض ستر گناہ زیادہ بار آور ہو چکا ہے۔ ہر رات گہنگاروں کو بخشش کے پروانے مل رہے ہیں۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا گیا کہ آپ رمضان المبارک میں تیز ہوا¶ں سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے ۔ ایسے میں انسان کو کم از کم یہ تو محسوس ہو کہ میں نے صرف اپنے خوراک کے معمولات کو ذر ابتدیل کیا ہے، تو مجھے شام تک بھوک کا کیسا احساس ہوا ہے۔
ان لوگوں کا عالم کیا ہو گا جن کے گھر میں مدتوں آگ روشن نہیں ہوتی، مدتوں چولہا نہیں جلتا۔ رمضان میں غم گساری کی ایک تحریک میسر آتی ہے جو اگر معاشرے میں مستقل رائج ہوجائے تو معاشرہ جنت نظیر ہوجائے۔
وحی الٰہی جو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس پر ایمان رکھنا اور جو آپ سے پہلے اتاری گئی اس پر ایمان رکھنا اہل تقویٰ کا چوتھا وصف ہے۔ یہ و صف اس امر کا آئینہ دار ہے کہ متقی صرف اللہ کی وحی پر مبنی نظام زندگی (دین) کو ہی حتمی سمجھتا ہے اور وحی الٰہی کے مکمل ہو جانے (یعنی ختم نبوت) کے بعد نہ تو کسی نبی کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور نظام کو انسانی احتیاجات کے لیے مکمل سمجھتا ہے۔ رمضان میں ہمیں اللہ کے پیغام قرآن سے وابستگی کے مواقع دوسرے ایام سے زیادہ ملتے آتے ہیں۔ تلاوت کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ، تراویح میں منزل سننے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دورس قرآن اور مفاہیم قرآن کی نشستیں بڑھ جاتی ہیں۔ کیا ہی عمدہ ہو کہ ہم امکانی حد تک کتاب ہدایت کی روشنی سے خود کو منور و مستنیر کریں۔
آخرت پر ایقان رکھنا اہل تقویٰ کا پانچواں نمایاں و صف ہے۔ ایقان اس مرحلہ تسلیم کو کہا جاتا ہے جہاں شک اور شبہ کا ذرا سا امکان بھی باقی نہ رہے۔ آخرت پر ایقان ضروری ہے۔ متقی اپنے ہر عمل کو آخرت کی جواب دہی کے نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ اسے ہر لمحہ یہ خیال رہتا ہے کہ میرا ایک الہ ٰہے جس نے مجھے پیدا کیا ،مجھے مہلت عمل دی اب ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے اور روزہ اس شعور سے رکھا جاتا ہے کہ مجھے اللہ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔یہ مزاج بن جائے تو آخرت کا ایقا ن پیدا ہوجاتا ہے اور عمل میں ازخود ایک حسن عمل اتر آتا ہے۔