برطانوی شہزادے ہیری اور امریکی اداکار میگھن کی شادی کا ہمارے ٹی وی چینلز پر بڑا چرچا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس شادی پر اب تک 4ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ شہزادہ چارلس اپنی بہو کے ساتھ ساتھ تھے۔ کیا انہیں یاد نہیں آیا کہ کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر کے لوگوں کی محبوب لیڈی ڈیانا ان کے ساتھ تھی۔
یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو اب تک تنقیدی باتوں کا طوفان آ گیا ہوتا۔ مغربی اور امریکی مارکیٹوں میں بے حساب خرچ کرنے والے عرب بھی ابھی یہ عیاشی سخاوت یا فضول خرچی نہیں کرتے۔
ایک زمانہ تھا کہ شادی پر چند روپے ہی خرچ ہوتے تھے۔ میری شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی۔ ایک تو اس لفظ سادگی نے ہمارا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرے ابا کے چند روپے بھی خرچ نہ ہوئے ہوں گے۔ دلہن کی رخصتی سے پہلے جب ہم ”بارات“ لے کے گئے آٹھ دس آدمیوں کے سر جھکائے ایک ساتھ چلنے کو ہم ”بارات“ نہیں کہہ سکتے۔
میرے ایک دوست چچا عظیم خان نے اونچی آواز میں کہا اوئے دولہا میاں کو کوئی ہار ہی پہنا دو۔ پتہ تو چلے کہ دولہا کون ہے۔ میرے بڑے بھائی پروفیسر اکبر نیازی بھی بارات میں تھے۔ اور ان کی شادی پر تین چار دن پہلے ہی ڈھول بجنا شروع
اپنی شادی کا مجھ سے زیادہ میری بیوی کو افسوس تھا۔ ایک دن ہم دونوں اپنی ایک سٹوڈنٹ کی شادی میں شریک ہوئے۔ وہ شادی میری بیوی کو بہت پسند آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی میں نے کہا دیکھو ہم دونوں اسی طرح پھر شادی کر لیں۔ اس نے مجھے نسوانی غصے والی آنکھوں سے دیکھا اور کہا میں اپنے ساتھ دوسری شادی کے لیے تمہیں بھی اجازت نہیں دوں گی۔
میں اس بے حد جینوئن اور دلچسپ نسائی ردعمل پر حیران رہ گیا۔ کچھ پریشان بھی ہوا۔ وہ عمران خان کو پسند کرتی ہے مگر اس بات پر بہت ناراض ہے کہ اس نے جمائما بی بی کو طلاق کیوں دی۔ میں نے کہا اس نے ریحام خان کو بھی طلاق دی ہے۔ وہ خاموش رہی۔ اور میں سمجھ گیا شہزادہ ہیری اور میگھن کی شادی کے مناظر ٹی وی چینل پر دیکھ کر ہی مزا آ گیا۔
میں لندن گیا تھا تو ایک بار شاہی محل کے پاس سے گزرا۔ پھر میں اپنے محلے میں آ گیا۔ محل اور محلے میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں بندہ نہ ہی سوچے تو اچھا رہے گا۔ برطانوی عوام گھروں سے نکل آئے۔ شادی میں شریک ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شادی محل والوں نے صرف چھ سو آدمیوں کو دعوت دی تھی مگر کسی شادی میں بغیر دعوت کے شریک ہونے میں عجب مزا ہے۔ لڑکے والے تو پوچھیں گے ہی نہیں۔ لڑکے والے کیوں پوچھیں گے کہ یہ لڑکی والوں کی طرف سے ہوں گے۔ ہم جب گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے تو بہت شادیاں کھائیں۔ کبھی کسی نے اعتراض نہ کیا۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر اجتماع میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں پہچانتے ہوں گے۔ مگر اب ہم دعوت کے باوجود بھی اکثر نہیں جاتے۔ وہ دو تین دن کے بعد ہم لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔ شاہی خاندان کا دولہا اور دلہن بھی لیڈی ڈیانا نے بھی یہی محسوس کیا ہو گا جو میگھن نے محسوس کیا ہے۔
اس دوران مجھے ایک منفرد انداز تخلیقی سوز و گداز والی خاتون اور خاتون شاعرہ طاہرا سراءکا پنجابی شعری مجموعہ ”شیشا“ ملا۔ اس شاندار شاعری کی کتاب کا ٹائٹل بہت خوبصورت اور بامعنی ہے۔ اس کچھ لفظوں میں بیان تو کر سکتا ہوں مگر اس ٹاٹئل کی دلکشی کا حق ادا نہیں ہو گا۔
طاہرا سرا کا تعلق شیخوپورہ سے ذرا دور منڈی ڈھاباں سنگھ سے ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک ٹیچر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی پہچان تو ہے وہ اپنی سوچ اور مصروفیتوں میں بکھرتی ہے اور پھر نکھرتی ہے۔
میں ساں رت گلاباں دی
اوہ سی اک انہیری بس
پیار تے سب نوں ہوندا اسے
ہوندی نہیں دلیری بس
میں پہلی واری پنجابی سنگت وچ پنجابی بولیاں پڑھدیاں سنیا تے حیران رہ گیا۔ خالصتاً پنجای لہجہ سی۔ میں سرائیکی زبان پسند کرداں۔ مینوں پنجابی وی اتنی ہی پسند اے کسے نے پچھیا کہ ایہہ مزیدار زباناں نیں تے مینوں ایہہ پسند اے جدوں کوئی خاتون سرائیکی بولے۔ طاہرا نے دو شاعراں لئی پسندیدگی دا اظہار کیتا۔ عجیب سرخوشی کا مقام ہے کہ مجھے بھی یہی دونوں شاعرات بہت بہت پسند ہیں۔ نسرین انجم بھٹی تو یہیں پاکستان میں تھی۔ ایسی نظمیں میں نے کسی شاعر سے نہیں سنیں۔ پھر جب بھارت گیا تو دہلی میں امرتا پریتم کے پاس حاضر ہوا۔ اچھے دل و دماغ اور اچھے سراپے والی عظیم خاتون سے گپ شپ کر کے بڑا مزہ آیا۔ بے قراریوں اور سرشاریوں سے بھری ہوئی امرتا پریتم نے غم اور عشق کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا۔ نسرین انجم بھٹی بہت دلنواز اداسیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کسی نے کہا نسرین انجم بھٹی پاکستان کی امرتا پریتم ہیں تو میں نے کہا کہ امرتا پریتم بھارت کی نسرین انجم بھٹی کیوں نہیں۔ اب ایک اور خاتون طاہرا سرا سامنے آئی ہے جس میں امرتا اور نسرین دونوں موجود ہیں۔
طاہرا سراءکی کچھ پنجابی بولیاں دیکھو۔ ان کے لفظوں میں مٹی بولتی ہے
نی میں پگ تھلے آ کے مر گئی کسے نے میری کوک نہ سنی
جے تو ہن وی نہ ایدھر تکیا میں تیرے نال نہیوں بولنا
ساڑھے چار چفیرے قبلے، کیہڑے پاسے منہ کریے
ساڈا عمراں دا لتھیا تھکیواں، تیرے نال گل کر کے
تینوں کسراں یقین دلاوا تیرے جہیا ہور کوئی نہ
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024