سترہ سالہ پاکستانی بیٹی سبیکا شیخ کی شہادت پر دلی صدمہ پہنچا ہے۔ ملالہ یوسف زئی بھی کم عمر تھی لیکن اسے ”دہشت گرد“ ملک پاکستان میں گولی ماری گئی تھی جبکہ سبیکا شیخ بھی کم عمر تھی مگر اس معصوم بچی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبردار سپر پاور اور امن کے چمپئن ملک امریکہ میں گولی مار دی گئی؟ ملالہ کو گولی مارنے والا دہشت گرد کہلایااور سبیکا کو گولی مارنے والا ذہنی مریض ؟ غیر مسلم دہشت گرد ذہنی مریض ہو سکتے ہیں تو مسلم ممالک میں ذہنی مریض کیوں نہیں ہو سکتے ؟ سبیکا شیخ ریاست ٹیکساس کے اسکول میں پیش آنیوالے واقعہ میں شہید ہوئی۔اس گن شوٹنگ میں کل دس افراد جن میں سے بیشتر سکول سٹوڈنٹس تھے ہلاک ہوئے۔ یہ اس سال امریکہ میں پیش آنے والا شوٹنگ کا 22واں اور سکول شوٹنگ کا نواں واقعہ ہے۔شوٹنگ واقعہ میں ملوث ملزم گرفتار طالب علم کی شناخت کرلی گئی ہے جو اسی اسکول کا طالب علم ہے اور فائرنگ کے بعد خودکشی کرنے کا خواہشمند تھا مگر ہمت نہ کر پایا۔گورنرٹیکساس نے بتایا کہ ملزم نے فائرنگ کے لئے اپنے باپ کی بندوق استعمال کی، اس نے خودکو پولیس کے حوالے کردیاتھا۔سبیکا شیخ محکمہ خارجہ کی سرپرستی والے نوجوانان کے تبادلے اور مطالعے کے پروگرام کے سلسلے میں امریکہ میں تھیں، جس کا مقصد امریکہ اور اپنے آبائی وطن پاکستان کے درمیان تعلقات کے فروغ میں مدد دینا ہے''۔سبیکا یوتھ ایکس چینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت ہائی اسکول کی طالبہ تھیں۔اب تک اس پروگرام میں 45 ملکوں کے 15 سے 18 برس عمر کے دس ہزار سے زائد نوجوان امریکہ آ چکے ہیں۔ یہ نوجوان ایک سال تک کسی امریکی ہائی اسکول میں مطالعے سے وابستہ رہتے ہیں، رضاکار امریکی خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور مقامی برادریوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گرد ملک ہے اور وہاں جانا رہنا یا بچوں کو بھیجنا خطرناک ہے ، ان کے لئے سبیکا شیخ کی شہادت ایک زندہ مثال ہے کہ موت کا وقت اور مقام قدرت نے لکھ دیا ہے ، وہ اپنے وقت پر آکر رہتی ہے۔امریکہ میں دہشت گردی اور گن شوٹنگ کے واقعات آئے روز ہو رہے ہیں۔ نام نہاد سپر پاور میں بھی کسی کی جان محفوظ نہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی درسگاہوں میں گھس کر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔گن شوٹنگ کے واقعات میں مسلمان نام کا باشندہ ملوث پایا جائے تو مغربی دنیا اسے دہشت گرد قرار دیتی ہے لیکن غیر مسلم خواہ معصوم بچوں کو بھون کر رکھ دے ذہنی مریض اور جنونی کہلایا جاتا ہے ؟ ان جاہلوں کو علم نہیں کہ بے گناہوں کی جانیں لینے والے ہوتے ہی جنونی اور ذہنی مریض ہیں۔ ان درندوں کا نہ کسی مذہب سے تعلق ہوتا ہے نہ انسانیت سے۔ لیکن اہل مغرب نے مسلمانوں کو دہشت گرد کے مستقل خطاب سے نواز دیا ہے۔سبیکا پاکستانی مسلمان بچی تھی لہٰذا امریکیوں نے روائتی تعزیت سے معاملہ فارغ کر دیا لیکن کوئی غیر مسلم مغرب کی بچی پاکستان میں ماری جاتی تو پورا مغربی میڈیا اور حکومتوں نے طوفان بد تمیز ی مچادینا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ایسا واقعہ کہیں پیش آتا ہے مسلمانوں کے سانس خشک ہوجاتے ہیں کہ خدایا مجرم مسلمان نامی باشندہ نہ ہو۔ امریکی اسرائیلی اور ان کے ہمنوا ممالک بے انصافی میں بہت ظالم ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کا دہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ ملالہ پاکستانی بچی تھی پاکستان میں گولی لگی اور گولی مارنے والے بھی پاکستانی تھے لیکن پیٹ میں مروڑ گوروں کو اٹھنے شروع ہو گئے ؟ملالہ کے واقعہ کو بین الاقوامی ایشو بنا کر پاکستان کی تاریخی تذلیل کی گئی۔ سبیکا شیخ ملالہ سے کم ذہین اور با صلاحیت تھی؟ اگر سبیکا بھی ملالہ کی طرح حادثے میں بچ جاتی تو کیا امریکہ اس کو بھی نوبل انعام کے لئے نامزد کرتا ؟ کیا مرنے کے بعد کوئی تاریخی اعزاز نوازا جا سکتا ہے ؟سبیکا بھی تعلیم کے لئے امریکہ آئی تھی ، امریکہ کی سر زمین پر ایک امریکی دہشت گرد کی وحشت کا نشانہ بننے والی سبیکا ذہین قابل بچی کو تاریخی خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے امریکہ نے کیا سوچ رکھا ہے ؟ یا صرف ملالہ کی آڑ میں پاکستان کا تماشہ بنانا ہی مقصود تھا ؟پاکستان کی سرکار اپنی ہونہار طالبہ کے بہیمانہ قتل پر خاموش رہے گی ؟ غلام ابن غلام ابن غلام بس جنازے اٹھا سکتے ہیں ، آواز نہیں۔ افسوس ہے ایسی بزدل اور دوغلی جمہوریت پر جو سپر پاور سے احتجاج کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔سبیکا 21 اگست 2017 کو کراچی سے امریکہ پہنچی تھی اور اگلے مہینے یعنی 9 جون کو اسے واپس آنا تھا لیکن 22 دن پہلے اس کی موت کی خبر آگئی۔باپ کہتاہے "میری اس سے آخری بات ہوئی تو کہنے لگی بابا میں نے پچھلے ایک سال سے گھر کا کھانا نہیں کھایا بس پوٹاٹو چپس کھاکر گزارا کیا ہے آپ میرے لئے سب کھانے بنوا کر رکھئے گا۔اس نے اپنی پسند کے کھانوں کی طویل فہرست مجھے اور اپنی ماں کو بھیجی تھی۔ہم لوگ اس کی واپسی کے منتظر تھے اور گھر میں تیاریاں چل رہی تھیں لیکن ہماری تیاریوں سے پہلے سبییکا آخری سفر کی تیاری کر بیٹھی۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024