پنجاب اسمبلی: الیکشن کمشن کی تشکیل نو کیلئے قرارداد کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کا احتجاج‘ سیڑھیوں پر مظاہرہ
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خبر نگار+ کامرس رپورٹر+ ایجنسیاں) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے الیکشن کمشن کی تنظیم نو کی قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان کے اندر اور اسمبلی کی سیڑھیوں پر احتجاج کیا گو نواز گو شہباز گو کے نعرے لگائے اور آج سے اسمبلی میں ’’دما دم مست قلندر‘‘ کا اعلان کردیا۔ اجلاس میں غیر سرکاری ارکان کی کارروائی کا آغاز ہوا تو اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے قرارداد پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ جس میں انتخابات میں بائیو میٹرک سسٹم لانے، الیکشن کمشن کی تشکیل نو اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے مطالبات شامل تھے۔ ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی نے کہا کہ قرارداد کو پیش کرنے کیلئے رولز معطل کرکے قرارداد پیش کرنے کیلئے درخواست دی جائے۔ وہ ایوان سے رائے لیں گے اگر ایوان نے حق میں رائے دی تو پیش کی جاسکے گی یا پھر اپوزیشن لیڈر وزیر قانون سے مل کر بات کرلیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان میاں اسلم اقبال اور عارف عباسی نے کہا کہ مینڈیٹ کی چوری روکنے کیلئے یہ قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ وہ قواعد و ضوابط کے پابند ہیں۔ رولز معطل کرنے کی درخواست کریں ووٹنگ کرا لیتا ہوں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ اس میں ایسی کیا چیز ہے جو اسے ایوان میں پیش کرنے میں مانع ہے اسی دوران ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی نے مفاد عامہ سے متعلق قراردادیں پیش کرنے کیلئے کارروائی شروع کی۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر کی جعلی پیروں، عاملوں کیخلاف قرارداد ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے موخر کردی گئی۔ سعدیہ سہیل رانا کی زراعت اور لائیو سٹاک کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانے اور میاں محمود الرشید کی حامد میر پر حملے کی مذمت کی قراردادیں ان کے پیش نہ کرنے پر ’’ڈسپوز آف‘‘ کردی گئیں۔ اسی دوران اپوزیشن مستقل شور مچاتی اور ’’گو نواز گو۔ گو شہباز گو‘‘ کے نعرے لگاتی رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی شمیلہ اسلم کی شناختی کارڈ کے اجراء اور تجدید کیلئے فیس وصول نہ کرنے کی وفاقی حکومت سے سفارش کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ چودھری عامر سلطان کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے نئے پے سکیل بنانے کی قرارداد پر اپوزیشن ارکان نے انہیں پڑھنے سے روکا مگر سپیکر کے پوچھنے پر عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ انہوں نے پڑھ دی ہے جس پر سپیکر نے ایوان سے رائے لی تو اکثریت رائے نے مسترد کردیا۔ اپوزیشن ارکان نعرے لگاتے ایوان سے نکلے اور اسمبلی کی سیڑھیوں پر مظاہرہ شروع کردیا۔ انہوں نے دھاندلا الیکشن نامنظور، غنڈہ گردی کی سرکاری نہیں چلے گی اور دیگر نعرے لگائے۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کا رویہ بیحد جانبدارانہ ہے۔ عوام کے ہمیں دئیے گئے مینڈیٹ کی توہین کی جارہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر ہمارے سوالات اور تحاریک التوا کار کو ایجنڈے پر نہیں لا رہے۔ سڑکوں پر بات کریں تو کہا جاتا ہے اسمبلی میں بات کریں۔ یہاں بات کرنے اور قراردادیں پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ وزیر قانون بھیگی بلی بنے بیٹھے رہے۔ صاف شفاف انتخابات قوم کا مسئلہ ہیں اس کیلئے بھرپور احتجاج کرتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں محکمہ جیل خانہ جات سے متعلق متعدد سوالات کے جواب موصول نہ ہونے پر قائم مقام سپیکر نے خفگی کا اظہار کیا اور صوبائی وزیر جیل خانہ جات عبدالوحید ارائیں کو کہا کہ یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔ محکمانہ انکوائری کرا کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کریں۔ صوبائی وزیر جیل خانہ جات نے تسلیم کیا کہ یہ محکمہ کی غلطی ہے۔ ایوان کو آگاہ کیا کہ 2011ء میں پنجاب میں 12 نئی جیلیں بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا اور 2014ء تک 6 نئی جیلیں بن جائیں گی جبکہ باقی 6 جیلیں 2015ء تک مکمل ہو جائیں گی۔ پنجاب میں کسی جیل میں بھی بچے قیدیوں کو بڑے قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ صوبائی وزیر ہیومن رائٹس طاہر خلیل سندھو نے تحاریک التواء کار کا جواب دیتے ہوئے ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب کی تمام شوگر ملوں نے گنے کے کاشتکاروں کو 15 مارچ 2014ء تک 87.59 فیصد ادائیگی کر دی ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن نے والٹن ائر پورٹ کو ختم کرنے کی مخالفت کی۔ حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں اقلیتی افراد کا علاج بیت المال سے کرنے کے لئے خصوصی کاؤنٹر بنانے کا اعلان کیا۔