پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے ایوان میں تقریریں کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ستتر والی صورت حال پید اہورہی ہے جس سے آئین کو نہیں ، وفاق کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ان ارکان سے تھوڑی سی چوک ہو گئی ہے، انہیں کہنا چاہئے تھا کہ ستتر نہیں، ستر والی صورت حال کا سامنا ہے اور یہ وہی صورت حال ہے جس میں وفاق پاکستان کی دھجیاں بکھیر دی گئی تھیں۔
ستر میں یہ ہوا تھا کہ الیکشن کا ایک نتیجہ سامنے آیا تھا جسے پیپلزپارٹی نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ منتخب قومی اسمبلی کا ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا مگرپیپلز پارٹی کے لیڈر بھٹو نے دھمکی دی کہ جو رکن پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ اعلان بھی کر دیاکہ ادھر ہم ، ادھر تم۔یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت کے مارشل لاچیف جنرل یحییٰ خان اور بھٹو کے درمیان کوئی ہم آہنگی تھی یا نہیں لیکن جب یحییٰ خان نے پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن کاا ٓغاز کیا تو بھٹو نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا۔ مگر حقیقت میں پاکستان کا صرف ا ٓدھا حصہ بچ پایا تھا، آدھا بنگلہ دیش بن گیا۔بھٹو کی پیشین گوئی آدھا سچ ثابت ہوئی تھی۔
ذرا دیکھ لیتے ہیں ستتر میں کیا ہوا۔ ستتر میں بھٹو حکومت نے خود ایک الیکشن کروایا۔اس الیکشن میں حکمران پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان قومی اتحاد کی پارٹیاں حصہ لے رہی تھیں لیکن قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں اس قدر دھاندلی کا ارتکاب کیا گیا کہ پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوںکے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ۔ اس طرح نئی پارلیمنٹ پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔الیکشن دھاندلی کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلی ، سیاسی بحران شدت پکڑ گیا اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔اس پرملک بھر میں مٹھائیاں بانٹی گئیں اور حلوے کی دیگیں چڑھائی گئیں۔فوجی اقتدار ہر لحاظ سے غیر آئینی ہوتا ہے لیکن اسی فوجی اقتدار میں پی این اے کی جماعتیں شریک ہوئیں اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اپنی سیاست کا آغاز اسی مارشل لا میں براہ راست وزیر بن کر کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج ہمیں ستر والی صورت حال کا سامناہے جس میں وفاق کو خطرات لاحق ہوئے یا ستتر والی صورت حال درپیش ہے جس میں آئین کو سبو تاژ کیا گیا۔
سترمیں وفاق اس لئے بکھرا کہ ملک کے دونوں صوبوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔دنیا کی کوئی فوج اپنی بیس سے باہر نکل کر نہ جارحیت میں کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ دفاع میں، امریکہ کی جنگیں ہمارے سامنے ہیں، اسے ویت نام سے پسپائی ہوئی، اب عراق سے ہو چکی اور وہ افغانستان سے بھی بوریا بستر سمیٹ کر جا رہا ہے۔پاکستان کی مسلح افواج امریکی اور نیٹو افواج کی متحدہ قوت سے زیادہ طاقتور نہیںہیں ، اور اس پر مستزاد پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے مشرقی حصے میں بغاوت کو ہو ا دی گئی اور اس کے فالو اپ میں خود بھارتی افواج نے برق رفتار جارحانہ حملہ کر دیا تو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ستر کی کہانی اس قدر سادہ نہیں جیسے میںنے چند سطروںمیں پیش کر دی، اس پر حمود الرحمن کمیشن کی ضخیم رپورٹ بھی موجود ہے اور میرا مطالبہ ہے کہ جہاںمشرف پر غداری کا کیس چلایا گیا وہاں ملک کے دو لخت ہونے پر بھی از سر نو عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس کی کاروائی بے شک میڈیا پر براہ راست نشر کی جائے۔آئین توڑنے کی سزا تو آئین میں لکھ دی گئی ہے اور یہ سزا ہر اس شخص کو دی جانی چاہئے جس نے آئین توڑا مگر ملک توڑنے کی سزا بھی تو کسی کو دی جائے۔مجھے توقع ہے کہ ستر کے بحران پر میری تحقیقی کتا ب ،سقوط آفتاب ،سترہ دسمبر تک مارکیٹ میں ہو گی۔
تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ستر کے سیاسی کرداروں کو قدرت کی طرف سے سزا مل چکی۔ شیخ مجیب کو اس کی فوج نے گولیوں سے بھون دیا، بھٹو کو اس کے مقرر کردہ آرمی چیف نے پھانسی دے دی اور اندرا گاندھی کو اس کے فوجی محافظوںنے خون میںلت پت کر دیا۔مگر ستر کے کرداروں کو قانون کے شکنجے میں بھی لانا ضروری ہے۔ اگر ہمیں ستتر سے خوف آتا ہے، اگر ہمیں وفاق سے محبت ہے تو پھر وفاق کوماضی میںنقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کرنا اور انہیں قرار واقعی سزا دینا ضروری ہے۔ان کی ہڈیوں کو قبروں سے نکال کر علامتی طور پر پھانسی دینی چاہئے۔
میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں ۔ ہم پر آج اللہ کا فضل ہے۔ آج ہمارے صوبوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں، اس لئے ہماری مسلح افواج ملکی وحدت پر کوئی ا ٓنچ نہیں آنے دیں گی، دہشت گردی کی جنگ میں افواج پاکستان نے جانوں کی قربانی دے کر پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھا ہے، سوات میں پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے اور فاٹا کا چھیاسی فی صد علاقہ دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے ، باقی چودہ فی صد علاقہ بھی دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے تو سرکاری کمیٹی کے سربراہ فواد حسن فواد ایک نوٹی فیکیشن جاری کریں ، اس کے اجرا کی تاریخ سے صرف دو ہفتوںکے اندر شمالی وزیرستان کے چند علاقوں پر بھی یقینی طور پرپاکستان کی عملداری ہو جائے گی۔
اب رہ گئی ستتر والی صورت حال۔تاریخ تو تاریخ ہے، اس کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ نہیںبولا جا سکتا۔ ستتر کے بعد ایم ا ٓر ڈی نے سندھ میں شورش برپا کر کے دیکھ لی، مگرنتیجہ صفر نکلا، وہ تو ایک فوجی چھائونی بنانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب وہ چھائونی بن گئی تو آج وہی کہتے ہیںکہ یہ چھائونی ان کیلئے امن کی ضمانت ہے۔
ستر میں ملک ٹوٹا تو صرف اس وجہ سے کہ مینڈیٹ پر عمل نہیں ہونے دیا گیا، ستتر میں مارشل لا آیا تو صرف ا س لئے کہ ووٹنگ بوتھوں پر عوامی مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔ستر میں عوامی لیگ کو اکثریت ملی اور اسے ماننے سے انکار کر دیا گیا ، ستتر میں صوبائی الیکشن میں اپوزیشن شریک ہی نہ ہوئی تو کیا ان رویوں پر شور مچانا گناہ ہے یا ایسے رویوں کا اعادہ گناہ ہے۔کیا عجیب طعنہ ہے کہ الیکشن دھاندلی کا شور مچا کر ستتر والی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے۔ مطلب تو یہ ہوا کہ دھاندلی جائز ہے، عوامی منڈیٹ پرڈاکہ جائز ہے مگراس پر شور مچانا گردن زدنی ہے۔اگر واقعی اندیشہ یہ ہے کہ وفاق کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو پھر دھاندلی سے گریز کیا جانا چاہئے یا دھاندلی کا شور مچا نے و الوں کو مطمئن کیا جانا چاہیئے۔ ملک کی عدلیہ اور الیکشن ٹربیونل آخر کس مرض کی دوا ہیں۔جھوٹے کو جھوٹا ثابت کریں اور فارغ کریں، عوام اس کے واویلے پر کان نہیں دھریں گے۔
خاطر جمع رکھیں، کوئی ستریا ستتر واپس نہیں آ رہا۔کیانی نے مارشل لا نہیں لگایا، راحیل بھی نہیںلگانا چاہتے۔مگر یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی ادارہ اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرتا۔ایک عدلیہ پر ہاتھ ڈالا گیاتوا سنے جلوس نکال دیئے، کیا آپ فوج کو یہ حق بھی نہیں دیتے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024