چودھری ذکاء اشرف نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے تیسری مرتبہ چارج سنبھال لیا ہے۔ ایک مرتبہ انہیں یہ عہدہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بخشا تو دو مرتبہ وہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اس اہم عہدے کے اہل قرار پائے۔ سٹیڈیم قدم رنجا فرمانے سے قبل ذکاء اشرف کے گھر پرمیلے کا سماں تھا۔ میڈیا جمع تھا مبارکباد دینے والے بھی بڑی تعداد میں تھے۔ عدالت کا تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد باراتی بہ ہمراہ دولہا قذافی سٹیڈیم پہنچے۔ ذکاء اشرف کی خوشی دیدنی تھی ہم خیالوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہمراہ تھی۔ استقبال کرنے والے بھی کم نہ تھے۔ ذکاء اشرف اپنی بحالی پر خوش تو ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ذکاء کی بحالی کی خوشی ان سے زیادہ ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ چیئرمین نے بگ تھری کے معاملے میں ازسر نو کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ نجم سیٹھی سے خوش خبریاں شیئر کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی جس میں خواہش سے زیادہ طنز تھی اب تقرریاں کالعدم ہو چکی ہیں‘ سیٹھی کے دور میں بھرتی ہونیوالے ملازمین کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ کچھ کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے باقی مرحلہ وار نکالے جائیں گے۔ یوں جو آتا ہے بورڈ کا ڈان بنتا ہے یعنی کرکٹ بورڈ کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ شخصیات پالیسیاں دیتی ہیں جو آتا ہے اپنی مرضی کرتا ہے۔ نجم سیٹھی کے مطابق ذکاء اشرف نے اگر پالیسیوں کو بدلا تو ملک کو 400 ارب کا نقصان ہو گا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بورڈ کے پیٹرن انچیف نے انہیں یہ مشن سونپا تھا کہ پاکستان کی عالمی سطح پر تنہائی کو ختم کرنا ہے‘ بھارت کے ساتھ میچز بحال کرنا ہیں کرپشن کا خاتمہ اور ملکی کرکٹ کو مسائل سے نکالنا ہے۔ ذرا سوچیے! ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہو رہی‘ فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کے بارے میں بے پناہ شکایات و تحفظات ہیں‘ پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین ہے یا نہیں کچھ علم نہیں یا پھر کوئی متنازعہ دستاویز ہے‘ ریجنز میں لڑائیاں عروج پر ہیں۔ کرکٹ کے معاملات عدالتوں میں ہیں، مصباح الحق کے بعد کوئی کپتان نظر نہیں آ رہا بگ تھری کے معاملے میں ہم تنہا ہو چکے ہیں نا صرف تنہا بلکہ بار بار موقف کی تبدیلی سے جگ ہنسائی ہو رہی ہے‘ ناہیڈ کوچ ہے ناچیف سلیکٹر ،ٹیم میں گروہ بندی ہے تو سابق کھلاڑی بھی کروپنگ کا شکار ہیں۔ 2015ء کا عالمی کپ سر پر ہے اور ہم اندرونی و بیرونی خلفشار کا شکار ہیں‘ ہم اپنے ہاتھوں اس کو تباہ کرنے کی سازشوںمیں اپنی صلاحیتوں کو صرف کر رہے ہیں آج جو تماشا لگا ہوا ہے اس کا سب سے بڑا ذمہ دار کرکٹ بورڈ خود ہے۔ حالیہ تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ ذکاء اشرف کا مشکوک الیکشن تھا جس کے بعد معاملہ بورڈ کی حدود سے نکل کر عدالتو ں میںجا پہنچا اور اس کے بُرے اثرات آج تک سامنے آرہے ہیں ۔یقینا جب حق تلفی ہو، حقوق غصب کئے جائیں اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش ہو تو پھر بیرونی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں صرف تباہی ہوتی ہے۔ ذکاء اشرف کی واپسی سے ٹارزن کی واپسی کی یاد آتی ہے۔ ایک طرف شاہ خرچیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف کنجوسی کا طعنہ دیا جاتا ہے ذکاء اشرف خود کو سب سے بڑا مخلص سمجھتے ہیں تو نجم سیٹھی کے خیال میں وہ مسیحا ہیں۔ نجانے حبیب حالب مرحوم نے کیوں لکھا تھا…؎
دل تمہارے ہیں نفرتوں سے بھرے
کون اب تم پر اعتبار کرے
جو بھی تم سے ملائے ہاتھ ڈرے
مر گئے اچھے لوگ تم نہ مرے
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024