بھارت میں انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کا برسراقتدار آنا پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے لئے ہرگز نیک شگون نہیں ہے۔ اس نے حالیہ انتخابات پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی جیتے ہیں۔ بھارت کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن بی جے پی کے منتخب ہونے والے 282ارکان میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ اس کی طرف سے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھ گجرات کے دوہزار مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کو منہدم کرنے میں یہ شخص پیش پیش رہا اور انتخابی جلسوں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ وہ پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کروانے کا الزام تسلسل سے لگاتا رہا اور اس کے بقول پاکستان میں روپوش بھارت کے انڈر ورلڈ ڈان دائود ابراہیم کو اس انداز میں اٹھا لانے کے عزم کا اظہار کیا جس طرح امریکہ نے ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو اٹھایا تھا۔ اس کی پاکستان سے شدید نفرت اور مسلمان دشمنی نے بھی انتہا پسند ہندوئوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس شخص کی بنیادی سیاسی تربیت مسلمان دشمن تشدد پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے پلیٹ فارم سے ہوئی ہو‘ جو اکھنڈ بھارت کا زبردست پرچارک ہو‘ اس کے متعلق یہ سوچنا کہ وہ کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی مملکت سے اچھے مراسم استوار کرے گا‘ ناقابل فہم ہے۔ پاکستان کے بارے اس کا خبثِ باطن کوئی راز نہیں۔ پاکستان کے حکمران بھی اس سے آگاہ ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان کی طرف سے اسے انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد کے پیغام اور دورۂ پاکستان کی دعوت دینے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ ہرگز مناسب نہ تھا۔ دراصل پاکستان کے موجودہ اور سابقہ حکمران امریکی ہدایات کے تحت بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کا راگ الاپنا اپنا فرضِ اوّلین تصور کرتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ لاکھوں کشمیری شہدائے کرام اور پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کے مکروہ کردار کو فراموش کردیتے ہیں۔
نریندر مودی تین مرتبہ بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہ چکا ہے۔ اس کی بہتر معاشی کارکردگی کے تناظر میں بھارت کی کارپوریٹ کلاس نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اسے وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچا کر دم لے گی۔ علاوہ ازیں بھارت کی پاکستان دشمن فوجی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا بھی نریندر مودی کی کھل کر حمایت کررہا تھا کیونکہ ان کے نزدیک بھارتی سیاستدانوں میں صرف نریندر مودی ہی پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے سچے خیرخواہ سید علی گیلانی اسے انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف قتل و غارتگری کے بہیمانہ واقعات میں ملوث ہونے والا یہ دہشت گرد آج بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوگیا ہے۔ یہ امر نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ اب پاکستان کے اربابِ اختیار کو بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی اور اس سے دوستی کی بھیک مانگنے کی بجائے جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات سے کسی کو انکار نہیں ہے مگر ایسا ہمسایہ جس نے آپ کی آزادی کو آج تک تسلیم ہی نہ کیا ہو‘ جو آپ کے ملک کو دولخت کرچکا ہو اور جو آپ کے ملک کے باقیماندہ وجود کے درپے ہو‘ اس سے بہتر تعلقات کی کون سی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر تیار نہیں ہوتا‘ تب تک اس کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔ انتخابات سے قبل جب نریندر مودی کی کامیابی کے امکانات روشن ہورہے تھے تو آسام‘ حیدر آباد اور میرٹھ میں بدترین مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اب جبکہ وہ وزیراعظم بن رہا ہے تو ہوا کے رخ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ’’نئی بھارتی حکومت کے خطے پر اثرات‘‘ کے حوالے سے ایک فکری نشست کا انعقاد کیا جس کی صدارت آبروئے صحافت اور ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کی۔ اس موقع پر اُنہوں نے اپنے مختصر مگر انتہائی جامع خطاب میں کہا کہ بھارت میں کوئی بھی برسراقتدار آئے‘ وہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اب نریندر مودی آیا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ وہ ہمارے لئے کتنا موذی ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے پوری طرح تیاری رکھنی چاہیے تاکہ اگر وہ شرارت کرے تو اس کی دُم کاٹ دی جائے۔ اگرچہ بھارت میں تبدیلی آئی ہے مگر یہ اتنی بڑی تبدیلی بھی نہیں ہے۔ کانگریس والے بھی ہمارے حق میں موذی تھے اور بی جے پی والے بھی موذی ہی ہیں۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے یومِ شہداء کے موقع پر کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے کے بیان پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ شہ رگ عرصۂ دراز سے بھارت کے قبضے میں ہے۔ وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اس اٹوٹ انگ کو توڑنے اور اس کے پاکستان سے الحاق کی خاطر ہمیں بھارت کے ساتھ جنگ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ قرآنی زبان میں ہمارے ایٹمی ہتھیار اور میزائل ہمارے گھوڑے ہیں جو بھارتی کھوتوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ایک بنیادی تنازعہ ہے اور اسے حل کئے بغیر اس خطے میں قیام امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ نشست سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ لیفٹیننٹ جنرل(ر)ذوالفقار علی خان‘ بریگیڈیئر(ر)فاروق حمید خان‘ میاں حبیب اللہ‘ مولانا امیر حمزہ اور فاروق خان آزاد نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024