خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے کم آمدن والے لوگوں کے لئے5ارب روپے کے رمضان پیکج کا اعلان کِیا گیا ہے۔ ماہِ رمضان میں صوبہ بھر میں 360بازار لگائے جائیں گے اور 334فیئر پرائس شاپس کھولی جائیں گی۔ ماڈل بازار ، سہولت بازار، جُمعہ بازار اور اتوار بازار اِن کے علاوہ ہوں گے۔ یعنی بازار ہی بازار جِس کسی کی جیب میں دام ہوں گے وہ اِن بازاروں میں جائے گا اور اپنی ضرورت اور پسند کی چیزیں خریدلے گا اور جو کوئی اِن بازاروں میں"Window Shopping"کے لئے جائے گا وہ اپنی طرف گھُورنے والے دکاندار سے معذرت کرتے ہُوئے کہے گا کہ
”بازار سے گُزرا ہوں، خریدار نہیں ہُوں!“
پنجابی زبان کا ایک اکھان ہے کہ”پلّے نہیں دھیلا تے کردی میلا، میلا“۔جب یہ اکھان ایجاد ہُوا ہوگا اُس دَور میں ایک دھیلے (آدھا پیسہ) میں میلا دیکھا جا سکتا ہوگا۔ اب تو دھیلا سکہ رائج اُلوقت نہیں 5روپے کا سکّہ ہے جِسے وزیرِ خزانہ جناب اسحق ڈار تو کیا کوئی بھِکاری بھی مُنہ نہیں لگاتا۔آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُستاد جناب محمد ابراہیم ذوق نے اپنے دَور کے بازار کا نقشہ یُوں کھینچا تھا....|
”مَیں وہ دیوانہ ہُوں ہڑتال رہی جیتے جی
مر گیا مَیں تو مرے شہر کا بازار کھُلا!“
اُستاد ذوقآج کے دَور میں ہوتے توپنجاب میں کھُلنے والے اِن بازاروں کو دیکھ کرخادمِ اعلیٰ کی شان میں اِتنا اعلیٰ قصیدہ کہتے کہ خادمِ اعلیٰ اپنے درباری شاعروں کو فوراً معطّل کر دیتے اور اُن کا ”بازارِ ارباب سُخن“ ٹھنڈا پڑ جاتا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق”ماہِ رمضان گُناہوں کو جلا کر نیست و نابود کر دیتا ہے“ لیکن اُستاد سالک کا مسلک کُچھ اور تھا جب انہوں نے کہا کہ....
”دُکّان مَے فروش پہ، سالک پڑا رہا
اچھّا گُزر گیا رمضان بادہ خوار کا“
وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے آخری دَور میں شراب پر پابندی لگائی تو مَے فروشی کی دُکانیں بھی بند ہو گئیں۔ اُس کے بعد سے لے کر اب تک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں شراب بنتی ہے، درآمد بھی کی جاتی ہے اور 5سَتارہ ہوٹلوں پر فروخت بھی ہوتی ہے۔ شراب کی فروخت پر ایکسائز ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہوتے ہیں۔ جہاں سے (عُلماءسمیت) پارلیمنٹ کے ارکان، فیڈرل شریعت کورٹ کے جج صاحبان اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور ارکان کو تنخواہیں مِلتی ہیں۔عام طورپر اشرافیہ کے لوگ ماہِ رمضان کے احترام میں شراب پینا کم کر دیتے ہیں۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب اپنی تقریروں میں کئی بار خبردار کر چُکے ہیں کہ”اگر اشرافیہ کے لوگوں نے اپنا رویّہ نہ بدلا تو خُونِیں انقلاب آئے گا“۔ لیکن اشرافیہ کی اپنی مرضی ۔ وہ خونِیں انقلاب سے نہیں ڈرتے بلکہ انقلاب اُن کے ڈر سے آتا ہی نہیںشرماتا ہے۔
پنجاب کے 9ڈویژن ہیں اور خادمِ اعلیٰ نے ماہِ رمضان میں اپنے 9وزیروں اُن ڈویژنوں کے ارکانِ اسمبلی، کمشنروں، ڈی سی اوز اور انتظامی مشینری کے دوسرے کل پُرزوں کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ ہر قِسم کے بازاروں میں فروخت کی جانے والی اشیائے خورو نوش کے معیار اور قیمتوں پر نظر رکھیں ۔ ہندوستان کی تاریخ میں علاﺅالدین خلجی پہلا بادشاہ تھا کہ جِس نے اشیائے خورونوش کی قیمتیں اور اُن کا معیار مقرر کیا اور کم معیارکی اور مقررہ قیمتوں سے زیادہ قیمت وصُول کرنے والے تاجروں اور دکانداروں کو سخت سزائیں دِلوائیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب منافع خور (جرائم پیشہ) عناصر کو سزائیں دلوانے کا بھی بندوبست کریں۔اِس لئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔پُورے یورپ(عیسائی ملکوں )میں نہ صِرف کرسمس ایسٹر اور دوسرے تہواروں بلکہ مسلمانوں اور دُوسرے مذاہب کے لوگوں کے تہواروں سے پہلے اشیائے خورونوش کپڑوں اور جوتوں کی قیمتیں 50فی صد تک کم کر دی جاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ہر تاجر اور دکاندار”حاجی بلیک“ بن جاتا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل یہ بھی کہا جاتا تھا کہ”ہندو بنیاغریب مُسلمانوں کو لُوٹتا ہے“۔قیامِ پاکستان کے بعد فرق یہ پڑا ہے کہ اب مسلمان بنیا ہی غریب مسلمانوں کو لُوٹتا ہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ ”اپنا ہے تو چھاﺅں میں مارے گا“۔ سوال یہ ہے کہ جو اپنا ہے وہ مارے گاکیوں؟۔جناب اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں"Free Economy" ہے، اِس لئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں کِیا جا سکتا“۔ دُنیا بھر میں زیادہ تر ملکوں میں ”فری اکانومی“ ہی ہے لیکن وہاں15/15سال تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بڑھنے نہیں دِیا جاتا۔ دراصل وہاں صارفِین کی تنظیمیں بھی بہت متحّرک اور فعال ہیں۔ یہاں 10/8ہزار روپے ماہانہ کمانے والے لوگ اگر صارفِین کی تنظیموں میں متحرک اور فعال ہو جائیں تو روزی کمانے کے لئے وقت کہاں سے نکالیں گے؟۔ روزی نہ مِلے تو روزہ؟ مرزا غالب نے کہا تھا....
”جِس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزے کو وہ نہ کھائے تو ناچار کیا کرے؟“
پنجاب میں رمضان پیکج کے مطابق2ہزار” مدنی دستر خوان“ لگائے جائیں گے۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ کم از کم اِن دسترخوانوں پر جتنے بھی لوگ سحر و افطار کریں گے اُس کا ثواب توخادمِ اعلیٰ اور اُن کی حکومت کو ضرور مِلے گا ۔ ریاستِ مدینہ میں تو سرکاری اور نجی طور پر عام دِنوں میں بھی غریبوں کے لئے ہر روز دسترخوان سجائے جاتے تھے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کے دسترخوان پر ہر روز ہزاروں لوگ کھانا کھاتے تھے۔اولیائے کرامؒ کی درگاہوں کے لنگروں کے لئے بادشاہوں کی طرف سے زرعی زمینیں وقف کردی گئی تھیں۔ اب وہ تمام زمینیں مخدُوم زادوں، پِیرزادوں اور سجّادہ نشینوں کی ذاتی ملکیت ہیں۔ ہماری فیڈرل شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل اور اِن سے باہر مُفتیان صاحبان نے اِس بارے میں کبھی کوئی فتویٰ ہی جاری نہیں کِیا۔ماہِ رمضان میں ہی حکومتی ارکان مع اہلِ خانہ سرکاری خرچ پر سعودی عرب چلے جاتے ہیں اوراعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں۔ہمارے یہاں تو عام لوگوں کے لئے ماہِ رمضان ”ماہِ امتحان“ بن جاتاہے۔”رمضان پیکج“ بھی پنجاب حکومت کے لئے ایک امتحان ہے یعنی ”امتحانِ رمضان پیکج“۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024