اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کا بجٹ 6 جون کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پچھلے برس یعنی 6 جون 2013ءکو ”نوائے وقت“ میں میرا کالم بعنوان ”بجٹ اور اسحاق ڈار کا امتحان“ شائع ہوا تھا۔ اس کالم میںنے لکھا تھا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کی طرف سے ماہانہ پنشن (ضعیف العمری) 3600 روپے دی جا رہی ہے۔ تین برس سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے۔ کسی سرکاری ادارے سے اگر کوئی کلرک بھی ریٹائر ہو تو اس وقت تقریباً بیس ہزار روپے ماہانہ پنشن وصول کرتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں ملازمت سے ریٹائر ہونیوالے ملازمین سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ 2007ءکو میں ایک اخبار سے ریٹائر ہوا تو مجھے ای او بی آئی سے تین ہزار روپے ماہانہ پنشن ملنا شروع ہوئی۔ 2012ءمیں صرف 600 روپے کا اضافہ کیا گیا جواب 3600 روپے ماہانہ ہو چکی ہے۔ 600 روپے کے اضافے کی ”سخاوت“ سمجھ میں نہیں آئی۔ گزشتہ برس بجٹ پیش ہونے سے قبل جناب سعید آسی نے بھی اس موضوع پر کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”ایسا نہ ہو کہ تم بھی مدا وانہ کر سکو“ گزشتہ برس اسحاق ڈار نے جب بجٹ پیش کیا تو ان کی حکومت کو اقتدار میں آئے چند روز ہوئے تھے۔ اب تو ایک سال بیت گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک برس میں ڈار صاحب کو معاشرے کے محروم طبقات ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے بزرگ افراد کے مسائل کا بخوبی علم ہو چکا ہوگا۔
وہ 1997ءسے 1999ءتک وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا وسیع تجربہ ہے 15مئی کو ”نوائے وقت“ میں ایک شخص خیر دین کا مراسلہ شائع ہوا جس میں لکھا گیا ” وفاقی وزیر خزانہ یہ نوٹ کرلیں کہ اگر پنشن میں اضافہ نہ کیا گیا تو یہ اس حکومت کا آخری ماہ ہو گا“ 17 مئی کے ”نوائے وقت“ کے ادارتی نوٹ میں لکھا گیا۔ ”جو افسران یا سیاست دان تنخواہوں میں اضافے کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ غریب ملازمین کی ترقی اور تنخواہوں میں اضافے کا راستہ نہیں روکنا چاہئے۔ وزیر خزانہ بجٹ میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کریں تاکہ ملازمین اپنے گھروں کے چولہے جلانے کیلئے کرپشن سے بچیں۔ اسی طرح پنشرز کی پنشن اور اولڈ ایج بنیفٹ سکیم کے تحت ضعیف العمر افراد کے اعزازیہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔خاطر خواہ اضافہ کے سلسلے میں، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ اعزاز یہ کم از کم مزدور کی تنخواہ کے برابر یعنی سات ہزار روپے ماہانہ کر دیا جائے۔
گزشة دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے بین الاقوامی اہل قلم کا نفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مستحق ادیبوں کو پانچ ہزار روپے ماہانہ جو اعزاز یہ دیا جاتا ہے۔ وہ سات ہزار روپے ماہانہ کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے چند ماہ بعد ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ موجودہ حکومت اگر اس اچھے بیان پر عمل کرتی تو مستحق ادیبوں کی دعائیں ان کو ملتیں، اضافہ تو دور کی بات، تسلسل بھی برقرار نہ رہ سکا۔ یعنی تین ماہ کا اعزاز یہ (جنوری تا مارچ ) مستحق ادیبوں کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان میں اسحاق ڈار نے کہا کہ معیشت پٹٹری پر آگئی، مہنگائی کم ترقی کی رفتار تیز، برآمدات میں اضافہ ہوگیا“ یہ خوشخبری ہے کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری سے دلبرداشتہ ہوکر لوگوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ ایک مراسلہ نگار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ”جب سے یہ حکومت آئی ہے، غریب عوام کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ بجلی، سوئی گیس، موبائل فون پر اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ اب غریب آدمی بل بھی ادا نہیں کر سکتا۔ دوسری کھانے پینے کی چیزیں غریب آدمی کی خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں سب سے مشاورت کی جائے گی۔ مشاورت میں ای او بی آئی کے پنشرز کو بھی شامل کرلیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024