رﺅف طاہر
تو کیا دانشوری کا مفہوم اب یہ ٹھہرا ہے کہ ہر مسلمہ قدر کو متنازعہ بنا دو، طے شدہ امور کو غیر طے شدہ بنا کر نت نئے مباحث اٹھاتے رہو، ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں! حالانکہ قوم اور معاشرہ تو کجا، ایک خاندان بھی کچھ بنیادی امور پر اتفاق رائے کے بغیر اپنا شیرازہ مجتمع نہیں رکھ سکتا۔
چند سال قبل، یہ ہمارے قیام جدہ کے دنوں کی بات ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر پرسن کراچی سے تشریف لائے۔ موصوف ”دانشورانہ“ بحث مباحثے کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے تھے جس میں تحریک پاکستان کی مبادیات سے لے کر قائدؒ اور اقبالؒ کے افکار و نظریات تک، ہر چیز کو مباحثے کا موضوع بنایا جاتا۔ جن امور پر اجماعِ امت ہو چکا، انہیں سوالیہ نشان کے ساتھ سٹوڈیو میں اپنے مہمانوں اور ٹی وی چینل کے ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا۔ 55/50 منٹ کے پروگرام میں جس کا نصف سے زائد حصہ اشتہارات کی نذر ہو جاتا اور باقی نصف میں سے، فاضل اینکر پرسن کی طرف سے اپنے علم و فضل کے اظہار کے بعد جو بچتا، وہ وقفوں کے ساتھ دانشور مہمانوں کے حصے میں آتا اور نتیجہ یکسوئی کی بجائے کنفیوژن میں نکلتا۔ احبابِ جدہ نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ چائے کی میز پر پوچھا گیا ”آپ کے پروگرام کا بنیادی آئیڈیا کیا ہے؟“ فرمایا ”(1) تشکیک (2) تحقیق اور (3) حقیقت تک رسائی“ اور پھر خالص دانشورانہ انداز میں وضاحت کی ”دیکھئے! ہم شک پیدا کریں گے تو تحقیق ہوگی، تحقیق ہوگی تو حقیقت کا ادراک ہو پائے گا“۔ ہم سے رہا نہ گیا، عرض کی ”لیکن اسے اس حد تک نہ لے جائیے گا کہ نرس ڈلیوری روم سے باہر آکر بیٹے کی ولادت کی خوش خبری دے اور والد صاحب جواب دیں: پہلے ڈی این اے کروا لیں کہ یہ میرا ہے بھی یا نہیں“۔
تو قارئین کرام! ہم کہہ یہ رہے تھے کہ بنیادی معتقدات اور مسلمہ اقدار کو متنازعہ بنا دینا کوئی دانشورانہ یا محققانہ کام نہیں، خالصتاً جاہلانہ بلکہ ابوجہلانہ حرکت ہے۔
”پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے یا قومی ریاست؟“ کا سوال بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ برصغیر میں ہندو، مسلم ہزار بارہ سو سال سے رہ رہے تھے لیکن یہ ہمیشہ ثقافتی و تہذیبی اور اعتقادی و ایمانی لحاظ سے دو مختلف اور متضاد دھاروں کی مانند سفر کرتے رہے۔ یہ دو کنارے تھے، اکبر کا ”دین الٰہی“ بھی جن میں پل کا کام نہ دے سکا۔ قائداعظمؒ کی درجنوں تقاریر ہیں، قیام پاکستان سے پہلے بھی اور 11 اگست 1947ءکی تقریر کے بعد بھی (جس سے ہمارے ہاں کے ترقی پسند اور روشن خیال شرارتاً خاص معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں) جن میں بانی¿ پاکستان نے پاکستان کو اسلام کے معاشی، سیاسی اور سماجی اصولوں کی تجربہ گاہ بنانے کی بات کی۔ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ برصغیر کی تقسیم مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر ہوئی اور نظریے اور عقیدے کے سوا کیا چیز ہے جو مسلم اور غیر مسلم میں تمیز کرتی ہے! اور وہ جو سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے کہا تھا: ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا دیا، دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا اور اس کا جواب بھی خود ہندوستان ہی کے ایک معمر سیاست دان مرار جی ڈیسائی نے دیا تھا ”نہیں! شریمتی جی نہیں!! پہلے ایک پاکستان تھا، اب دو پاکستان بن گئے ہیں“۔ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو چکا تھا تو بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک معرض وجود میں آنے کی بجائے، ہندوستان میں شامل ہو جاتا۔
تو کیا دانشوری کا مفہوم اب یہ ٹھہرا ہے کہ ہر مسلمہ قدر کو متنازعہ بنا دو، طے شدہ امور کو غیر طے شدہ بنا کر نت نئے مباحث اٹھاتے رہو، ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں! حالانکہ قوم اور معاشرہ تو کجا، ایک خاندان بھی کچھ بنیادی امور پر اتفاق رائے کے بغیر اپنا شیرازہ مجتمع نہیں رکھ سکتا۔
چند سال قبل، یہ ہمارے قیام جدہ کے دنوں کی بات ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر پرسن کراچی سے تشریف لائے۔ موصوف ”دانشورانہ“ بحث مباحثے کے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے تھے جس میں تحریک پاکستان کی مبادیات سے لے کر قائدؒ اور اقبالؒ کے افکار و نظریات تک، ہر چیز کو مباحثے کا موضوع بنایا جاتا۔ جن امور پر اجماعِ امت ہو چکا، انہیں سوالیہ نشان کے ساتھ سٹوڈیو میں اپنے مہمانوں اور ٹی وی چینل کے ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا۔ 55/50 منٹ کے پروگرام میں جس کا نصف سے زائد حصہ اشتہارات کی نذر ہو جاتا اور باقی نصف میں سے، فاضل اینکر پرسن کی طرف سے اپنے علم و فضل کے اظہار کے بعد جو بچتا، وہ وقفوں کے ساتھ دانشور مہمانوں کے حصے میں آتا اور نتیجہ یکسوئی کی بجائے کنفیوژن میں نکلتا۔ احبابِ جدہ نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ چائے کی میز پر پوچھا گیا ”آپ کے پروگرام کا بنیادی آئیڈیا کیا ہے؟“ فرمایا ”(1) تشکیک (2) تحقیق اور (3) حقیقت تک رسائی“ اور پھر خالص دانشورانہ انداز میں وضاحت کی ”دیکھئے! ہم شک پیدا کریں گے تو تحقیق ہوگی، تحقیق ہوگی تو حقیقت کا ادراک ہو پائے گا“۔ ہم سے رہا نہ گیا، عرض کی ”لیکن اسے اس حد تک نہ لے جائیے گا کہ نرس ڈلیوری روم سے باہر آکر بیٹے کی ولادت کی خوش خبری دے اور والد صاحب جواب دیں: پہلے ڈی این اے کروا لیں کہ یہ میرا ہے بھی یا نہیں“۔
تو قارئین کرام! ہم کہہ یہ رہے تھے کہ بنیادی معتقدات اور مسلمہ اقدار کو متنازعہ بنا دینا کوئی دانشورانہ یا محققانہ کام نہیں، خالصتاً جاہلانہ بلکہ ابوجہلانہ حرکت ہے۔
”پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے یا قومی ریاست؟“ کا سوال بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ برصغیر میں ہندو، مسلم ہزار بارہ سو سال سے رہ رہے تھے لیکن یہ ہمیشہ ثقافتی و تہذیبی اور اعتقادی و ایمانی لحاظ سے دو مختلف اور متضاد دھاروں کی مانند سفر کرتے رہے۔ یہ دو کنارے تھے، اکبر کا ”دین الٰہی“ بھی جن میں پل کا کام نہ دے سکا۔ قائداعظمؒ کی درجنوں تقاریر ہیں، قیام پاکستان سے پہلے بھی اور 11 اگست 1947ءکی تقریر کے بعد بھی (جس سے ہمارے ہاں کے ترقی پسند اور روشن خیال شرارتاً خاص معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں) جن میں بانی¿ پاکستان نے پاکستان کو اسلام کے معاشی، سیاسی اور سماجی اصولوں کی تجربہ گاہ بنانے کی بات کی۔ اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ برصغیر کی تقسیم مسلم اور غیر مسلم کی بنیاد پر ہوئی اور نظریے اور عقیدے کے سوا کیا چیز ہے جو مسلم اور غیر مسلم میں تمیز کرتی ہے! اور وہ جو سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے کہا تھا: ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا دیا، دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا اور اس کا جواب بھی خود ہندوستان ہی کے ایک معمر سیاست دان مرار جی ڈیسائی نے دیا تھا ”نہیں! شریمتی جی نہیں!! پہلے ایک پاکستان تھا، اب دو پاکستان بن گئے ہیں“۔ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو چکا تھا تو بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک معرض وجود میں آنے کی بجائے، ہندوستان میں شامل ہو جاتا۔