
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
سیاست ہی کیا عام زندگی سے لے کر جنگوں تک میں مذاکرات کا آپشن موجود ہوتاہے۔ ہمارے ہاں سیاست جس ڈگر پر رواں رہی ہے اور آج بھی ہے۔ مذاکرات سے گریزاں پالیسی جب بھی اور جس نے بھی اختیار کی اس سے سیاست میں تباہی اور بربادی ہی آئی۔ پاکستان کی سیاست میں نوّے کی دہائی نائٹ میئر کی حیثیت یعنی خوف کی علامت تھی۔ اس دور کے حریف جو کبھی تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے لگتے تھے آج دونوں ایک ساتھ میں یک جان اور دو قالب ہیں۔ جو ایک دوسرے کے لیے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت تھے۔2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی کی لڑی میں پروئے ہوئے ، باری باری اقتدار میں آئے اور اب تیسری باری ایسی لی کہ عمران خان ،مسلم لیگ ن ہی نہیں پی پی پی سمیت تیرہ چودہ پارٹیوں کے دشمن قرار پائے۔ نوّے کی دہائی جیسی مخالفت ،ذاتیات اور دشمنی، ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر بھی تیار نہیں۔مگر اب کچھ امکان نظر آیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ وہ سب کے ساتھ بات کرنے پر تیار ہیں۔ عمران خان نے بھی بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔ مگر اب بھی مخالفت میں کمی نظر آ رہی ہے نہ ہی مذاکرات کی طرف حالات بڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم نے بات چیت کی بات کی، دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک شخص نے ملک کو تباہ کر دیا۔ اس کے باوجود ابھی اگر مذاکرات کی کوئی رمق موجود تھی تو مریم نواز شریف صاحبہ کی اس کانفرنس کے دوران عمران خان کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو شدت پسند اور عسکریتی جماعت کے طور پر ڈیل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
جو پارٹی حکومت میں ہو اس کی لیڈرشپ کا دل بڑا ہوتا ہے۔ اپوزیشن کو سانس لینے دیا جاتا ہے، کچلا نہیں جاتا۔ مگر ہمارے ہاں اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی روایت پختہ تر ہو رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 94مقدمات درج کرا دیئے گئے ہیں۔ عمران خان نے عدالت میں کہا کہ ان کو لگتا ہے کہ آئندہ چند روز میں مقدمات کی سنچری بن جائے گی۔پھر ایک وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے طاقت کا جو استعمال ہوا پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستانیوں کی سبکی کا باعث بنا۔
عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد آج ایک سال ہونے کو ہے لیکن اس حکومت کے کنٹرول میں کچھ بھی نہیں ہے۔ پٹرولیم کی قیمتیں جس طریقے سے دوگنا ہو گئی، ڈالر بھی اسی طرح بہت زیادہ روپے کے مقابلے میں مضبوط ہوا۔ مہنگائی کا طوفان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اپوزیشن نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس حکومت نے اپوزیشن کو اس طرح سے دیوار کے ساتھ لگایا ہے کہ عمران پر اتنے مقدمے ، باقی لیڈروں پر بھی اسی طرح سے مقدمات۔ عمران کو کسی بھی طرح سے گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کی کوششیں، پی ٹی آئی کو اپنے لیڈروں کی گرفتاری کی پریشانی ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کو گرفتار نہ کیا جا سکے۔ عمران کے خلاف اتنے مقدمے بن چکے ہیں ۔ یہ سارا کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ حکومت کے کنٹرول میں نہ مہنگائی ہے، نہ امن و امان کی صورت حال ہے۔ تو ہر دوسرے تیسرے روز عمران کی گرفتاری کے حوالے سے کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔یہ سارا کچھ ایسے لگتا ہے کہ اپنی ناکامیوں سے اپوزیشن کو لاتعلق رکھا جائے۔ مہنگائی کے حوالے سے تحریک انصاف یا اپوزیشن کسی قسم کی کوئی تحریک نہ چلا سکے ۔ ا س کو موقع ہی نہیں مل رہا کہ وہ تحریک چلائے ،اسے اپنی پڑی ہوئی ہے۔ لیکن یہ سارا کچھ پاکستان میں جمہوریت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ تو یہ حکومت عوام کو ایک بتی کے پیچھے لگائے ہوئے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری ڈیل ہو رہی ہے، دوست ممالک سے ہم پیسے لے رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ ہو جائے گا تو عوام کو پھر ہم ریلیف دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے واضح طور پر یہ پہلے بھی کہا گیا تھا کہ جب تک عمران خان معاہدے کو سپورٹ نہیں کرتے ہم ڈیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ حکومت عمران خان کے ساتھ کسی قسم کا نہ رابطہ کرنا چاہتی، نہ مذاکرات اس کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے امداد ملتی ہے یا نہیں ملتی، ادھر چین نے پچاس کروڑ ڈالرپاکستان کو دے دیئے ہیں۔ اس چیز کو لے کر وزیرخزانہ کی طرف سے بڑی خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن چین نے یہ جو پیسے دیئے ہیں یہ صرف اور صرف ان منصوبوں کے لیے ہیں جو پہلے سے جاری ہیں۔ امریکہ اس حکومت کا بڑا پشت پناہ بنا تھا۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ آگے آئے اور پاکستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے،لیکن ایسا سرِدست نظر نہیں آتا۔
باقی مہنگائی کے حوالے سے اگر بات کریں تو میں جب بھی پاکستان آتا ہوں تو جو بجٹ میں اپنے لیے مختص کرتا ہوں ۔ اس دفعہ ایسے لگا کہ وہ چار گُنا اپنی وقعت کھو چکا ہے کہ جہاں میرا ایک مہینے کا ٹور ان پیسوں میں ہوتا تھا وہ اب ایک ہفتے کے لیے بھی کافی نہیں۔ تو میرے جیسا بندہ وہ بھی پاکستان آ کر مہنگائی کے ہاتھوں بڑا پریشان ہے ۔ عام پاکستانی کا پھر کیا حال ہوگا، اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں، میں یہ کہنا چاہتا ہو ں کہ یہ حکومت تھوڑا سا اعتدال کی طرف آئے ،اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے عمران خان کا عرصہ حیات تنگ نہ کرے۔مذاکرات تو دشمنوں کے مابین جنگوں کے درمیان بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اب بھی عمران خان نے اگر بات چیت پر آمدگی ظاہر کی ہے تو اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے عمران خان کے ساتھ حکومت کو بات چیت ضرور کر لینی چاہیے۔ اور پنجاب کی نگران حکومت کو جس مقصد کے لیے نگران بنایا گیا ہے وہ اپنا کام خوش اسلوبی سے کرے نہ کہ لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا اور نئے کیس رجسٹرڈ اور فائل کرنا یہ نگرانوں کے کام نہیں ہوتے بلکہ یہ مہربانوں کے کام لگتے ہیں۔تو میری مخلصانہ رائے میں پنجاب کی نگران کابینہ کا حساب اس وقت یہ ہے کہ ’’گاوانڈی دے گھر اگ لین آئی تے گھر والی بن بیٹھی‘‘