
ہم مسیحا کے منتظر ہیں
کْل کی بل بنیاد پر ’’جْزو‘‘رائی سے پہاڑ،قطرے سے سمندر،تِنکے سے تنا بن جاتا اور چوکیدار،جامہ دار خود کو’’تھانیدار‘‘خیال کرنے لگتاہے۔سردی کے موسم میں دریاوں،نہروں اور راجباوں کے بل پر قرب و جوار کے کھالے اور چھوٹے چھوٹے جوہڑ’’چھپڑیاں‘‘بھی خْنکی اور ٹھنڈ میں اپنے جوبن دکھاتی ہیں۔اینٹ روڑے،بٹے اور پتھر گویا برف کے تودوں کی طرح یخ ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ ہوا چلتی ہو تو سردی چوہے کے بِل میں بھی گْھس جاتی ہے۔شام ہوتے ہی اکثر لوگ گرم لحافوں میں گْھس جاتے ہیں۔ذرا سا بھی کمبل یا رزائی سرک جائے تو سردی کی لہر سی زنازن اندر آ گْھستی ہے اور پسلیوں ہنسلیوں میں ٹِیس بن کر ٹھہر سی جاتی ہے۔ابھی مارچ کا مہینہ چل رہا ہے،ہم سردی کے تازہ تازہ تجربہ و مشاہدہ بلکہ"مجاہدہ"سے گزرے ہیں۔اب تو سردی گرمی سے بغل گیر ہوکر جدا ہونے کو ہے۔دسمبر جنوری کی سردی یاد آرہی ہے۔سوچتا ہوں کہ ہم گرم کمروں کے اندر"کمروں"گْھٹنوں اور پِنڈلیوں میں درد اور کھچاو تناو کی وجہ سے سو نہیں پاتے رہے،ہائے کْھلے آسمان تلے وہ جْھگھیوں کے باسی، سرد ہوا کے تھپیڑے جن کی جْھگیوں میں 1947ء کے دشمن جتھوں کی طرح وارد ہوکر دھاوا بولتے رہے۔دْھند اور کہر نیجْھگیوں کی طنابوں پر جم کر انہیں لوہے کی طرح سرد کر دیا ہوگا۔نسل در نسل سے موسموں کے تغیرات سے لڑنے،نمٹنے والے وہ عادی سے جْھگی باس تو جیسے تیسے گزارا کر لیتے ہوں گے۔مگر سیلاب زدگان جو کچی ہی سہی چھت اور چاردیواری کے مکیں رہے ہیں۔اب وہ کْھلے آسمان تلے سرد ہواوں کی جفائوں کو سہنے کے لئے قوتِ مدافعت بھی نہ رکھنے والے لوگ ہیں،کیسے ٹھنڈی راتیں اور راتوں جیسے سردیلے"برفیلے"دن گزار چکے ہوں گے۔ 2022 اگست ستمبر میں آنے والے سیلاب بارے2023ء کی PDMA کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں کم ازکم 89،157 سیلاب متاثرین اب بھی بے گھر ہیں۔ان گِنت گھروں،ویلاز اور کوٹھیوں کے مالکان نے بے گھر لوگوں کی طرح ان بے گھر لوگوں کے حقوق ہڑپ کرکے انہیں مستقل رہائشوں کے صرف سبز باغ دکھا دئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی آفت آجائے تو کچھ مہذب لٹیروں کی لاٹری کْھل جاتی ہے۔اندرونی بیرونی امداد ہڑپ کر جاتے ہیں۔حالانکہ ایسے صاحبانِ ثروت و اقتدار کو چاہیے کہ حقداروں کا حق ان تک پہنچا کر اپنا "چہرہ باطن" سنوار لیں۔لیکن یہاں باطن اور باطل کے متعلق کبھی نہیں سوچا گیا۔جنوری 2023 میں بلوچستان کے علاقہ سومیانی میں سردی کی وجہ سے 3 سالہ بچہ ٹِھٹھر کر مرگیا۔سیاسیوں کی بے حِسی کی کہر میں وہ مکفون بچہ وطنِ عزیزکے سیاستدانوں کی سنگ دلی پر انگشت بدندان ہوکر مٹی کی آغوش میں حشر تک کے لئے سوگیا۔ہمارے سیاستدانوں کو سیاست کی گوٹیاں پھینکنے اور تاش کے پتے کھیلنے ہی سے فرصت نہیں ملتی۔اپنی اپنی سیاسی لڑائی میں یہ خواہشوں کے غلام ملک و ملت کی خدمت کے جذبات کو کہیں پاوں تلے روند چکے ہیں۔دنیا کے دیگر ممالک اپنے عوام کی ترقی کے لئے سرجوڑ کر قانون سازی کرتے اور ترکیبیں سوچتے ہیں،مگر یہاں گِدھ نما سیاسی نمائندے عوام کی بوٹیاں نوچتے اور اپنے شکم کے بارے سوچتے ہیں۔ تقریباً ہر سیاستدان پر کرپشن کے کیسز،غبن اور بدعنوانی کے کئی عنوان کْھلے ہوئے ہیں۔قانون کی ضخیم کتابوں میں ہر طرح کے چھوٹے بڑے جرم کی سزا موجود ہے،لیکن سیاسی فرعونوں اور بیوروکریسی کے سامنے قانون کی کتابیں بھی سہمی ہوئی خاموش پڑی رہتی ہیں۔اپنے آپ کو قانون کے پھندے اور نیب کے"رندھے" سے بچانے کے لئے ترامیم کرکے قانون کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔شکم پرور ملائوں کی طرح جھوٹے اور کمزور فتوے گڑھنے کی طرح قانون کی نئی نئی تشریحات گڑھی جاتی ہیں۔کبھی تو لگتا ہے کہ ہمارا شمار شاید معذوب و معتوب لوگوں میں ہونے لگا ہے۔کیونکہ ہم اجتماعی طور پر سب لوگ"کتاب"کا تقدس بھول گئے ہیں۔یہ ساری بربادی،ہڑبونگ اور نفسانفسی کی شکل میں اسی گناہ کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ام الکتاب قرآن پاک کو بھی ہم بڑی حد تک اپنی ہوس پرستی میں چھوڑ چکے ہیں۔آئین کی کتابوں کی توہین اور مخالفت ہمارا وتیرہ بن گیا ہے، علمی وادبی کتابیں خاکم بدہن جْوتوں سے بھی بدتر مقام پر شرمندہ و نمدیدہ سسکیاں بھرتی زبانِ بے زبانی میں ہمیں بددعائیں دے رہی ہیں۔یہاں قانون تو ہے مگر اس پر عمل کرنا اور کروانا ہمارے اپنے ہی گلے کے لئے رسی بنتا ہوا نظر آتا ہے۔کیونکہ بدقسمتی سے ہم سب کسی نہ کسی صورت میں آئین اور قانون کی کسی نہ کسی دفعہ کی ذد میں آتے ہیں۔اسی لئے ہم آج طرح طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔رگ رگ میں بسے ہوئے مرض سے خلاصی کی خاطر ہم من پسند اشیاء کو تیاگ کر تندرست اور صحت مند نہیں ہونا چاہتے۔ہم وقتی سے فائدہ اور سرْور کے لئے فِکری،معاشی اور سیاسی کینسر کی آخری سٹیج پر کھڑے ہیں،بلکہ کھڑے ہونے سے بھی قاصر ہیں۔درحقیقت ہم سب اپنے ضمیر کے مجرم ہیں۔کبھی بھی ملک و قوم کی تعمیر وترقی ممکن نہیں ہوسکتی جب تک ہمارے عوام،سیاستدان اور بیروکریٹس اپنی سوچ کا قبلہ درست نہیں کریں گے۔اللہ پاک کے قرآن سے لے کر ایک عام سی عِلمی کتاب بھی اپنے اندر انسانوں کی اصلاح،تربیت اور بقا کا سبق لئے ہوئے ہے۔قوانین اور اصول و ضوابط ہوتے ہی انسانوں کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے ہیں۔لیکن ہم تو قوانین و ضوابط کے گلے پر خود"خنجرِ شِمر" رواں رکھتے ہیں۔ہماری زندکی کے ہر پہلو میں تجارت نما سیاست کا وائرس گْھس آیا ہے۔جن ذمہ داران نے ہم عوام کو ٹھیک کرنا تھا وہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہوکر آپس میں دست و گریباں ہوئے ہانپ کانپ رہے ہیں۔آستینیں چڑھائے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروفِ عمل ہیں۔عوام کی آہ و بکا،چیخیں اور سسکیاں ان تک پہنچتی ہی نہیں،ان کی قوت سماعت ان کی اپنی ہاتھا پائی کے شور کے آگے بے بس سی ہوکر رہ گئی ہے۔انصاف کے لئے ہم جن کی زنجیرِ در ہلا ہلا کر تھک گئے ہیں۔شاید ان کے اپنے پاوں میں کسی کی مرضی دل کی زنجیر پڑی ہوئی ہے۔نہ جانے وہ سورج کب طلوع ہوگا جب مجبور و مقہور اور مایوس عوام کی دہلیز پر واقعی کوئی صدائے انصاف بلند کرے گا۔ہم کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔