
امراجالا
اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
ایک طرف پوری قوم یوم پاکستان کی تیاریوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب زمان پارک اور اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریاست کو جس طرح چیلنج کیا گیا اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ زمان پارک میں ایک سیاسی جماعت نے عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کیا اور منظم اور مسلح جتھوں نے پیٹرول بموں سے پولیس پر باقاعدہ حملہ کیا جس کے نتیجے میں 60سے زائد پولیس اہلکار اور شہری شدید زخمی ہوئے ۔علاوہ ازیں متشدد کارکنوں کے پتھرائو سے درجنوں موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ کپتان کے ’’کھلاڑیوں‘‘ نے نہ صرف پنجاب پولیس کے اہلکاروں پر حملہ کیا بلکہ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ظاہر سی بات ہے کہ اس صورتحال کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ انتہاپسندی پر مبنی عمل کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے ۔اسی تناظر میں مریم نواز نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت قرار دے کر اس پر پابندی لگائی جائے۔سنجیدہ حلقوں نے اس بابت بات کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاک بھارت پیش رفت پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ مودی اور عمران خان کے بیانیے روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھیمے اور تسلسل سے جاری ہے ۔ بھارتی معیشت مجموعی طور پر خاصی مستحکم ہے شائد اسی وجہ سے بادی النظر میں پاکستان پر اس صورتحال کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔
اسی تناطر میں اس امر کا تذکرہ بھی شائد بیجا نہ ہو کہ مودی اور عمران خان نے اپنی زیادہ تر لڑائی سوشل میڈیا کی وساطت سے جاری رکھی ہے اور ابھی بھی ان دونوں کا سارازور اسی شعبے میں ہے ۔مثال کے طور پر کپتان تسلسل کے ساتھ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں پوری طرح کرپٹ ہیں اور میں اس صورتحال کے خاتمے کیلئے تمام تر جہدوجہد کررہا ہوں مگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو اس دعویٰ کا کھوکھلا پن پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کیوں کہ پونے چار سال تک موصوف پاکستان کے تمام تر سیاہ سفید کے مالک تھے مگر اس کے باوجود وہ مبینہ کرپشن کے کسی ایک بھی معاملے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔
یوں اُن کے تمام تر بیانات الزامات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور محض الزامات کی بنیاد پر کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے یوں بھی پاکستان کے سابق چیف جسٹس آصف سید کھوسہ سمیت اکثر حلقے کپتان کی اس روش کو پولیٹکل انجینئرنگ قرار دے چکے ہیں اور اس ضمن میں ممتاز کالم نگار جاوید چوہدری اس بابت بہت سے چشم کشا انکشافات کر چکے ہیں ۔
دوسری طرف جس طرح عمران خان کی ’’خاتون خانہ‘‘ کی آڈیو سامنے آئی تھی اس نے ہر کسی کے ذہن میں بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ظاہری طور پر یہی لگتا ہے کہ پاک قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف یہ ایک بڑی سازش ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بابت پورے حقائق قوم کے سامنے لائیں جائیں کیوں کہ اپنی مبینہ گفتگو میں یہ ’’محترم خاتون‘‘ جس طور’’ ارسلان بیٹے‘‘ کو ہدایات دی رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ اس سارے معاملے کو غداری کے ساتھ گڈمڈ کر دیا جائے وہ اپنے آپ میں ایک افسوس ناک امر ہے ۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستانی عوام، حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کی روش اگرچہ مغربی اور بھارتی میڈیا کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے مگر وطن عزیز کے کچھ حلقے بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی شدت آ گئی ہے اور ان اداروں کے خلاف ایسے ایسے افسانے تراشے جا رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی پیر۔ درحقیقت پاکستان کے ازلی مخالفین گذشتہ 75 سالوں سے وطن عزیز کے خلاف منظم مہم چھیڑے ہوئے ہیں اور اس کے پس پردہ نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے حکومتی طبقات ہے بلکہ امریکہ اور یورپ کے کچھ حلقے بھی اس مکروہ مہم میں حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔
نائن الیون کے سانحے کے بعد ان حلقوں کی بن آئی تھی، جب عالمی سطح پر پاکستان پر کافی دبائو بڑھ گیا تھا مگر زمینی حقیقت ازل سے یہی چلی آ رہی ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، سچ کو بہرحال سامنے آنا ہی ہوتا ہے، محض پراپیگنڈے کے زور پر کوئی فرد یا گروہ ساری دنیا کو ہمیشہ کے لئے گمراہ نہیں کر سکتا۔ لہذا اسی آفاقی اصول کے تحت عالمی برادری پر بھی گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ادارے دہشتگردی کی سرپرستی نہیں کر رہے بلکہ اس برائی کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کے پس منظر میں قابض بھارتی فوج پلوامہ ٹو کی طرز پر کسی طرح کا نیا فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے لہذا اس بابت انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں کشمیر پر بھارتی قبضے کو بھی 4سال ہونے کو ہے ایسے میں عالمی برادری سے محض توقع ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ نہتے کشمیریوں کے خون کو رایگاں نہیں جانے دے گی۔