بلوچستان میں سیلاب سے 10 افراد جاں بحق
بلوچستان کے ضلع آواران اور ژوب میں بارشوں کے بعد آنیوالے سیلاب کے باعث 10 افراد جاں بحق ہو گئے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 24 گھنٹوں میں خضدار میں 10‘ قلات 9‘ کوئٹہ 3‘ دالبندین میں 5‘ بارکھان میں 4‘ پنجگور اور پشین میں تین تین ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی شدید بارشیں ہوئیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ متعلقہ حکام بارش و سیلاب کے دوران ہونیوالے حادثات کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
گزشتہ مون سون میں آنیوالے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کی ابھی تک تلافی نہیں ہو پائی ‘ متاثرین کی بحالی کا سلسلہ ادھورا پڑا ہے اور لوگ آج بھی کھلے آسمان تلے بے یارومددگار پڑے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے اندرون ملک اور بیرونی دنیا سے کافی امداد ملی ہے لیکن ابھی تک متاثرین کی بحالی کا کام کہیں ہوتا نظر نہیں آرہا جس کا ثبوت ان متاثرین کی دہائی ہے جو ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ بے شک ملنے والی امداد سیلاب کی تباہ کاریوں کے مقابلے میں ناکافی ہے ‘ مگر اس امداد سے جتنا ممکن ہوسکتا ہے‘ متاثرین کی بحالی کا کام شروع ہوناچاہیے تاکہ پاکستان کو امداد دینے والے ممالک کا اعتماد بھی بحال رہے۔ آواران اور ژوب میں شدید بارشوں سے آنیوالے سیلاب سے 10 قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جو افسوسناک ہے۔ چند ماہ بعد بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہر سال محکمہ موسمیات کی پیشگی اطلاعات کے باوجود سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کا حکومتی سطح پر کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا اور قوم کو جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر عوام الناس کو پیشگی اطلاع دے دی جائے تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ لیکن حکومت کو اس پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے‘ عوام کے جان و مال کا تحفظ بہرصورت ریاست کی ہی ذمہ داری ہے جسے نبھا کر ہی اپنے فرائض منصبی کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ مون سون کی آمد سے پہلے حکومتوں کو پیشگی اقدامات کرلینے چاہئیں تاکہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔