کرونا کی عالمی وبا نے پاکستان کے لئے پریشانیاں پیدا کیں تو وزیر اعظم نے پہلے تو ایک اعلی سطحی اجلاس میں کئی اقدامات کاا علان کیا۔پھر عوام میں خوف و ہراس پھیلتا چلا گیا تو وزیر اعظم نے ضروری سمجھا کہ براہ راست خطاب کیا جائے اور لوگوں کواعتماد میں لیا جائے۔ وزیر اعظم کی تقریر کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ وہ غیر ضروری طور پر خوف و ہراس اور سراسیمگی کے زیر اثر فیصلے نہیں کریں گے اور حالات کو دیکھ کر ہی ساتھ ساتھ اقدامات کرتے چلے جائیں گے۔ وزیر اعظم کر کٹ کپتان کی حیثیت سے مرد بحران کی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کے طور پر انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کس گیند سے کھیلنا ہے اور کس گیند سے نہیں کھیلنا ۔ اس لئے کسی کو انہیں زیادہ مشورے دینے کی ضرورت نہیں۔ وزیر اعظم کے پاس مسلح افواج کی شکل میں ایک منظم ادارہ موجود ہے جو ہر قسم کی معلومات اکٹھی کرنے اور ان کاتجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہے۔
ویسے وزیر اعظم سے بڑے بڑے فیصلوں کی توقعات ا ور مطالبات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ آئین میں آٹھویں ترمیم نے وفاقی حکومت کو محض ایک علامتی حیثیت دے رکھی ہے۔ صحت کے تمام معاملات صوبوں کے دائرہ کار میں چلے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس چند ہسپتال ہیں جہاں ا سکا حکم چل سکتا ہے۔ صحت کے بڑے منصوبے اور ہسپتال تو صوبوںنے ضد کر کے وفا ق سے ہتھیا لئے تھے۔ اس لئے اس شعبے کے جملہ امور اور ان کے لئے ضروری بجٹ صوبوں کی تجوریوں میںموجود ہے۔ وہ بسم اللہ کریں اور اس خزانے کو استعمال میں لائیں۔ ورنہ جون کے آخر تک یہ سارے فنڈز عدم استعمال کے باعث لیپس ہو جائیں گے۔
کرونا کے پیش نظر وفاقی حکومت کو سرحدوں کی نگرانی کرنی ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرناہے۔ خواہ یہ زمینی راستہ ہو یا فضائی راستہ یا بحری راستہ۔
وزیر اعظم ے پاس صحت کا وفاقی قلم دان ضرور موجود ہے مگر انہیں صوبوں کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دینے کے لئے آٹھویں ترمیم میں کئی ترامیم کرنا ہوں گی۔ جن صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے ان میں البتہ وزیر اعظم معاملات چلانے کے لئے اپنی صوبائی حکومت کو خصوصی ہدیات دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے پاس آئین کے تحت ایمر جنسی کے نفاذ کااختیار موجود ہے مگر جب وزیر اعظم خود سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی ایمر جنسی کے جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں تو وہ ملک کو لاک ڈائون کیوں کریں گے۔ صوبوں کے معاملات میں دخل اندازی کے لئے وفاقی حکومت کے پاس ایک راستہ باقی ہے اور وہ ہے این ڈی ایم اے کی صورت میں جو قدرتی آفات زلزلہ۔ سیلاب وغیرہ میں اقدامات کرنے کا مجاز اور مختار ہے اور اب اسی ادارے کو ہی فعال بنایا گیا ہے کیونکہ کرونا بیماری بھی ایک قدرتی آفت ہے ۔ دنیا بھی ا سی ادارے کو کروڑوں ڈالر کی ہنگامی امداد دے رہی ہے۔
وفاقی حکومت نے صوبوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی کے ذریعے ا س مصیبت سے نبٹیں مگر وفاقی سطح پر ایک کوآرڈینیشن کمیٹی قائم کی گئی ہے تاکہ تمام انتظامات بہتر طور پر عمل میں لائے جا سکیں، ا س کمیٹی میں وفاقی محکمہ صحت کے نمائندے، مسلح افواج کے نمائندے موجود ہیں اورا سکے اجلا س باقاعدگی سے منعقد ہو رہے ہیں اور ہر بدلتی صورت حال میں نئے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ ان میں افغان سرحد کو کھولنا قابل ذکر ہے اور ا سکی وجہ بھی یہ ہے کہ وزیر اعظم کو احسا س ہے کہ افغان بھائی روزمرہ کی اشیاء کے لئے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔
وزیر اعظم کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ ملک میں ایسی پابندیاں نہیں لگا سکتے کہ لوگ کرونا کی بجائے بھوک سے مر جائیں۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ملکی معیشت کی حالت زار کیا ہے اور اسے مزیدبگاڑنے کا مطلب لوگوں کی فاقہ کشی پر منتج ہو گا، روزگار پہلے ہی کم ہے اور لوگوں پر موجودہ ذرائع آمدن بھی بند کرنے سے ان کی مفلوک الحالی میں اضافہ ہوگا، وزیر اعظم اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیںلوگوں کی عادات کا علم ہے کہ کس طرح ذخیرہ ا ندوز قدرتی آفات کا فائدہ اٹھا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اس وقت ستم یہ ہے کہ منہ ڈھاپنے والے ماسک نایاب ہو گئے ہیں،۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ دکانوں پر رش لگا ہے اور جن لوگوں کے پا س وافر پیسہ ہے وہ دکان خالی کر کے اپنے کچن میں ڈھیر لگا رہے ہیں جس کی وجہ سے غریب آدمی کو صابن اور دال تک چھوٹی دکانوں سے نہیں ملتی۔ ۔ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہین مگر لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ابھی رمضان المبارک میں تو کافی ہفتے پڑے ہیں مگر منافع خوروں کی ابھی سے چاندی ہو گئی ہے۔وزیرا عظم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو نہیں چھوڑیں گے مگر ا س عزم کو بروئے کار لانے کے لئے انہیں جس نظام کی ضروت ہے وہ ملک میں موجود نہیں ،وزیر اعظم خود ہی مافیا کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ کس طرح عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور یہی مافیاز اس وقت قدرتی آفت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ایک قیامت کرونا نے مچا رکھی ہے اور دوسری قیامت منافع خوروں اور ذخیرہ ا ندوزوںنے مچا رکھی ہے۔ اگر چہ اسلام سے زیادہ فلاحی مذہب اور کوئی نہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ غیر اسلامی حکومتیں فلاحی اقدامات میں بہت آگے ہیں اور اگر انہوںنے ملک کو لاک ڈائون کیا ہے تو لوگوں کے گھروں میںراشن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا ہے۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے انہیں اپنے طرز عمل کو بہتر بنانا چاہئے ، اس کے لئے وزیرا عظم کے احکامات کی کیا ضرورت جب کہ خداا ور اس کے رسول ﷺ کے احکامات ہماری راہنمائی کے لئے موجود ہیں۔
وزیر اعظم اس قوم کے جذبوں سے پرامید ہیں۔ وہ تو شوکت خانم ہسپتال کے منصوبے چیریٹی سے مکمل کر چکے ہیں۔ایدھی جیسے ادارے چیریٹی پر چل رہے ہیں اور ماضی کے زلزلے اور سیلابوں میں قوم نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا اورمیں ذاتی طور پر ستمبر پینسٹھ کی جنگ کے دنوں کونہیں بھول سکتا جب قوم نے ایسی یک جہتی کا مظاہرہ کیا کہ دنیا انگشت بدنداں رگئی۔ کسی نے ذخیری اندوزی نہیں کی ۔ کسی نے زیادہ قیمت وصول نہں کی ، میرے محلے اسلامیہ پارک لاہورمیں رشید بیکری تھی۔ یہ میرے کمرے کے سامنے واقع تھی چھ ستمبر کو ا سکے باہر لائینیںلگ گئیں اور درجنوں کے حساب سے لوگوں نے ڈبل روٹیوں کا تقاضہ کیا مگر بیکری کے بزرگ مالک نے کہا کہ میں خود جانتا ہوں ا ٓپ روزانہ کیا لے جاتے ہیں،ا س سے زیادہ نہیں ملے گاا ور یقین دلاتاہوں کہ میرے پاس مہینوں کا بند و بست موجود ہے ، ہر چیز ملے گی اور انہی قیمتوں پر ملے گی ۔ یہ جذبے پوری قوم میں موجود تھے۔ ہماری قوم نے ان جذبوںکا قدم قدم پر مظاہرہ کیا ہے اوروز یراعظم اس پوزیشن میں ہیں کہ قوم کے انہی جذبوں کو بیدار کریں اور وہ اسی حکمت عملی کے تحت ضرورت مندوں کے دروازوں تک پہنچیں گے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024