آج ایک نام ہر ایک کی زبان پر ہے:
جیسنڈہ کیٹ لارل آرڈرن
نیوزی لینڈ کی کم عمر وزیراعظم۔ ایک بیٹی کی ماں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکی ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ وہ اس عمر میں ہی سرد و گرد چشیدہ ہیں۔
جیسنڈہ آرڈرن ایک ایسے راستے پر چل رہی ہیں جو عام طور پر غیر مسلموں کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی عورتیں دوپٹہ سر سے ا تار اتار کر پھینک رہی ہیں، جیسنڈہ آرڈرن نے سر پہ دو پٹہ اوڑھا۔ کرائسٹ چرچ کے غم زدہ گھرانوں تک پہنچیں۔ ان سے اظہار غم کیا۔ انہوںنے پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے کیا اور ارکان پارلیمنٹ کو السلام علیکم کہہ کر مخاطب کیا۔ میںنے یہ ویڈیو کلپ حامد میر کے ٹی وی پروگرام میں دیکھا۔ وہ بڑے جذباتی اور پرجوش تھے مگر افسوس کی بات ہے کہ ان کے ٹاک شو کے مہمانوں نے رسمی سے رد عمل کا اظہار کیا۔ اگر وہ بھی جذباتی ہو جاتے تو انہیں ڈر تھا کہ لوگ انہیں کٹر، بنیاد پرست، انتہا پسند مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے۔
جیسنڈہ آرڈرن مسلسل چھ روز سے سوگ کی حالت میں ہیں۔ انہوںنے کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی پر اپنے ملک کا پرچم سرنگوں کئے رکھا۔ چند منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔ اب انہوں نے ایک انقلابی اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک میں جمعہ کی اذان قومی ٹی و ی پر نشر ہوا کرے گی۔
میںنے یہ خبر ابھی سنی ہے۔ میرے دل سے پہلے ہی جیسنڈہ آرڈرن کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں، دعائیں تو میں انہیںاب بھی دے رہا ہوں مگر اب مجھے ان کی سلامتی کی دعائیں مانگنی ہیں۔ ان کو نظر بد سے بچانے کے لئے دعائیں مانگنی ہیں۔ وہ جوکچھ کر رہی ہیں، دنیا اسے بنیاد پرستی پر محمول کرتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کو نفرت کی مہم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک کم سن لڑکے نے اپنے لا میکر کی ٹنڈ پر انڈا کیا دے مارا کہ ا س پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس نوجوان کو ٹویٹ کرنا پڑا کہ اگر آپ نفرت پھیلانے والے رکن پارلیمنٹ کے سر پہ انڈا مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر بیس تیس غنڈوں سے ٹھکائی کے لئے تیار رہیئے۔
جیسنڈہ آرڈرن الٹے دھارے پر چل رہی ہیں۔ اگر وہ یہ کہہ دیتیں تو کافی تھا کہ ایک جنونی شخص اس کے ملک کی نمائندگی نہیں کرتا تو مسلمان اس پر بھی مطمئن ہو جاتے۔ مگر جیسنڈہ آرڈرن کریز سے باہر نکل گئیں۔ انہوں نے اپنے مسلم شہریوں کو اپنی جان کا روگ بنالیا ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ مغرب کی نفرت کی مہم اسے لے ڈوبے گی۔ اب تک تو وہ ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی کرر ہی تھیں۔ اب ہمیں ان سے ہمدردی ہونے لگی ہے اور ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ ان کی جان کی سلامتی کی دعائیں بھی ہمارے دل سے نکل رہی ہیں۔ غیر مسلم دنیا ان کے جذبوں پر مشتعل ہو سکتی ہے کہ وہ کہاں سے آگئیں مسلمانوں کی بڑی غم خوار۔ مغربی جنونی معاشرہ کسی بھی رد عمل کا اظہار کر سکتا ہے۔ جیسنڈہ آرڈرن کی انسانی ہمدردی کے جذبوں کی توصیف و تعریف صرف اسلامی معاشروں میں کی جا رہی ہے۔ اور ہم انہیں ہیرو کا درجہ دے رہے ہیں مگر اہل مغرب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بلاشبہ کرائسٹ چرچ کی دہشت گردی کی تو مذمت کی مگر اسے ایک انفرادی فعل قرار دیا۔ اگر یہی انفرادی فعل کسی مسلمان سے سرزد ہوتا تو اس کے ناطے القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ اور جیش محمد سے جوڑے جاتے اور مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی دہشت گرد ہونے کی پھبتی کسی جاتی۔ میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر یہی سانحہ ذرا الٹ ہو جاتا اور کوئی مسلمان نیوزی لینڈ کے پچاس غیر مسلموں کی جان لے لیتا تو اب تک نیوزی لینڈ والے اپنی وزیراعظم سے استعفیٰ لے چکے ہوتے کہ وہ سخت نااہل نکلیں اور اپنے عوام کا تحفظ نہیں کر سکیں مگر دیکھئے کہ نیوزی لینڈکے مسلمانوںنے پچاس لاشیں وصول کیں اور ان کے لبوں پر کوئی حرف شکائت نہیں آیا۔ ایک خاتون اپنے شوہر اور اپنے جوان بیٹے سے محروم ہو گئی مگر وہ جنونی قاتل کے لئے محبت بھرے جذبات کااظہار کر رہی ہے۔ مسلمان جس نبیؐ کو مانتے ہیں وہ تو اس روز بے چین ہو گئے تھے جب ان پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت نے یہ مذموم حرکت نہ کی۔ وہ اس خاتون کے گھر پہنچے کہ اماں ! خیریت تو ہے۔ پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اس لئے گھر سے نکل نہیں سکی مگر جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی نفرت کا نشانہ بننے والا خود اس کی خیریت پوچھنے آیا ہے تو اس نے بے ساختہ کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔
اب آیئے قومی دھارے کی بحث کی طرف۔ میرا موقف ہے کہ جیسنڈا آرڈرن اپنے قومی دھارے سے الٹ چل رہی ہیں۔ ویسے ہم بھی کونسا اپنے قومی دھارے کے رخ پر چل رہے ہیں۔ ہم نے اسلام کے نام لیوائوں کو غیر ملکی دبائو پر پابندیوں کا شکار کر دیا۔ ویسے ریاست پاکستان کی ہمت اور حوصلہ ملاحظہ ہو کہ اس نے حقانی نیٹ ورک کے طعنے پر ایک سپر
پاور تک کا دبائو قبول نہیں کیا۔ بلکہ اسامہ بن لادن کے مسئلے پر بھی اسی سپر پاور کا دبائو مسترد کر دیا حتیٰ کہ اس سپر پاور کو خود ایکشن لینا پڑ گیا مگر مبینہ جہادی اور فلاحی تنظیموں کے مسئلے پر ریاست پاکستان ہر وقت دبائو قبول کرنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ مجھے ہنسی ا ٓتی ہے اپنی ریاست کے رویئے پر کہ اس نے مصطفی کھر کو تو قبول کر لیا جس نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان آئے گا تو بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر۔ ہماری ریاست نے احسان اللہ احسان کو بھی گلے لگا لیا اور یہی ریاست بار بارا علان کرتی ہے بلوچ نوجوان بندوق رکھ دیں اور قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ ہماری ریاست نے سوائے الطاف حسین کے اس کے سبھی پیروکاروں کو قومی دھارے میں شامل کر لیا۔ ہماری ریاست نے ایسی جماعتوں کو قومی دھارے میں شامل کئے رکھا جو کہتی ہیں کہ پاکستان بنانے کا گناہ ان کے اسلاف نے نہیں کیا۔
کیا قومی دھارے کی تشریح کے لئے ہمیں جیسنڈہ آرڈرن کو اپنے ہاںمدعو کرنا چاہئے۔ ان کا تو قومی دھارا وہ نہیں ہے جس پر وہ چل رہی ہیں بلکہ وہ تو اقلیتی دھارے پر چل رہی ہیں۔ادھر ہماری ریاست ہے جو اکثریتی دھارے کو اقلیتی دھارے کی طرف ہانکنے کی کوشش میں ہے۔ بلاول یہی چاہتا ہے۔ اس کی پارٹی بھی یہی چاہتی ہے مگر میںنے بلاول کو یاد کرایا ہے کہ اس کی پارٹی کا ماضی بھی انہی جرائم کی چغلی کھاتا ہے جس کے لئے وہ ممنوعہ جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور حکومت کے تین وزرا کو بھی اپنی الزام تراشی کی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اگر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ہے بلاول کے نزدیک جرم ٹھہرا ہے تو پھر وہ وزیراعظم عمران خاں کو کیوں بخش رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا ہیرو سلطان ٹیپو ہے۔ شاید اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہوں جو میر جعفر اور میر صادق کو اپنا ہیرو مانتے ہوں۔
ویسے ہماری آنکھیں تب کھلتی ہیں جب ہم ابھی نندن اورا س کے ساتھ ایک اسرائیلی پائلٹ کے طیاروں کی گھن گرج سنتے ہیں۔ ایسی آزمائش میں ہم بھی جیسنڈہ آرڈرن جیسا طرز عمل ا ختیار کر لیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جیسنڈہ آرڈرن کو ہیرو مان لیں اورا سکی تقلید کریں ۔ آیئے میرے ساتھ اس مطالبے میں شریک ہوں کہ جیسنڈہ آرڈرن کو نوبیل امن انعام سے نواز جائے۔ اس اڑتیس سالہ خاتون نے ہماری ہی نہیں دنیا بھر کی آنکھوں میں چکا چوند بھر دی ہے۔ محبت، امن، آشتی، اخوت کا پیغام دینے والی یہ بہادر خاتون ہی نوبیل امن انعام کی حقدار ہے۔ اسے نوبیل انعام کون دے گا مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو اس نے مسخر کر لیا ہے۔اس نے بتکدوں کے عین درمیان ایک اذان دی ہے۔یہ اذان اب نیوزی لینڈ میں ہر جمعہ کو بلند ہوا کرے گی۔ ہماری ریاست ان اذانوں سے ڈرتی ہے۔ کیوں ڈرتی ہیں۔ یہ معاملہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024