غزل فہمی کوئی آسان نہیں یہ حسنِ خاص خدا کی عطا ہے، ادب کی یہ صنف کوئی اکھاڑا نہیں کہ زور بازو سے کامیابی حاصل کی جائے، شاعر کا عروض سے آشنائی کے بنا یہ کام مکمل نہیں ہوپاتا، شعر گوئی کی الہامی کیفیت آرام کرتے ہوئے شاعر/شاعرہ کو ایک غیرمرئی طاقت کے طور پر کاغذ اور قلم تھمادیتی ہے۔ پھر وہ شعری گرفت میں قید ہوکر بیان کرتاہے اس سے اخذ کرلیاجائے کہ شاعر شعر نہیں کہتا بلکہ شعر شاعر کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوتاہے توغلط نہیں ہے، شعر یا غزل گوئی کی اچانک سے طاری ہوجانے والی کیفیت کسی وقت، موسم، مزاج، محفل اور خلوت و جلوت کی محتاج یا پابند نہیں۔ دور حاضر پہ نظرڈالیں تو قصیدہ،مثنوی، مسدس، ہجو،سوخت جیسی اصناف معدوم اور رباعی بھی آخری دموں پہ نظرآتی ہے۔ غزل میں جہاں نامور شعراء کا ذکر آتاہے وہاں صفدر سلیم سیال کا بھی ایک مقام موجود ہے۔شاعری تتلیوں کی طرح گلِ نوخیز کو چومتی بادِگلستان سے اٹکھیلیاں کرتی لطفِ زندگی سے ہمکنار ہوتی ہے تو وہاں سیال جیسا شاعر کہتاہے۔
؎بس میں ہوتا تو کوئی وار نہ ہونے دیتے
ہم کسی شہر کو مسمار نہ ہونے دیتے
انسانوں کی بستی میں احساسات وجذبات خوابوں کی اپنی دنیا بھی بساتے ہیں اسی دنیا میںایک محبت کی بستی بھی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں خود بخود آباد ہو جاتی ہے جیسے خود رو پودا قدرتی طور پہ دشت وصحرا میں بھی اگتا ہے اسی طرح سیال صاحب کی شاعری میں لَودیتی ہوئی محبت کی آرزو ان کے اندر موم کی طرح پگھلتی نظرآتی ہے۔
دیدہ ودل مری سرکار اٹھالائے ہیں
ہم قفس میں بھی ترا پیار اٹھا لائے ہیں
سیال صاحب کے کہنے کے مطابق وہ ہمہ وقتی شاعر نہیں ہیں، نزول شعر کے اوقات بے احساسات منظر، واقعات کا ہونا ہی قلم کی کرامات کو قرطاس پہ ثبت وتحریر کرتاہے۔
بے نیازی بھی کیا خوب انعام ہے۔ بے نیاز ہوجائو توسوختہ جگرکی کسک بھی آسودگی دیتی ہے بے نیاز ہوجائو تو کئی پہروں کا فاقہ بھی تعفن زدہ خوراک سے سیرہوجاتاہے اسی بے نیازی میں جینے والے شاعرصفدر سلیم سیال کو جب تک الہام پابہ زنجیر نہیں کرتا تب تک وہ قلم کی نوک کو کاغذ پہ نہیں رکھتے، صفدر سلیم سیال کو پڑھا تو معلوم ہوا وہ بھی مجید امجد، جعفرطاہر اور شیرافضل کی طرح جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے لہجے میں ان کا علاقہ بولتاہے تو کیا اچھا ہوتاکہ صفدرصاحب اپنے ساتھ جھنگوی بھی لگالیتے ’’صفدر سلیم سیال جھنگوی‘‘
وہ درویشانہ صفت کے ساتھ ساتھ مہذب اور عاجزانہ لہجے میں ایسی کاٹ پیدا کردیتے ہیں کہ قاری حیران رہ جاتاہے ۔لکھتے ہیں کہ…؎
محبتوں میں بھی مال ومنال مانگتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں اجروصال مانگتے ہیں
غزل سے ذرا نظرچرا کے جب صفدر سلیم نے نظم وتحریر کی تو بے اختیار آنسوئوں نے دامن دل کو بھگو دیا، جو کیفیت قارئین شاعر بیان کرتاہے اگر انسانی جذبات پہ شدت کے ساتھ طاری نہ ہوں تو مزہ نہیں آتا۔
5جنوری کو پیدا ہونے والے شاعر صفدر سلیم سیال کو اردو ادب سے کمال کی انسیت تھی ہروقت کتابوں کی کھوج میں تاریخ کے اوراق پلٹتے نظرآتے، اس وقت شاید انہیں یہ ادراک نہ تھا کہ ایک دن وہ صاحبِ کتاب بھی ہوجائیں گے،2007ء میں غزلیات کے مصنف ہوئے اور 2009ء میں نظموں کے، ادب کی خدمت کے دوران ’’مجید امجد ایک مطالعہ‘‘ ان کی سرپرستی میں تیار ہوا، ادبی مجلے’’ محور‘‘ کے مدیر تھے۔ شاعری کی جبلت و ودیعت کوادب کے ماحول نے جلا بخشی۔کبھی کبھی انسان کے اندر اندھیرا روشنی کی موہوم سی کرن کو خورشید سمجھ لیتاہے اور کبھی آفتاب کی چکاچوند روشنی اندھیرے بانٹتی نظرآتی ہے، کیفیات، جذبات، زمانہ دوست احباب، عمر کے اوزان انسان کو پہاڑوں سے بہنے والے جھرنوں کی موسیقی سناتے ہیں اور کبھی دریائوں میں پڑے کالے پتھروں سے ٹکرا کر ابدی نیند سلادیتے ہیں مگر صفدر سلیم سیال نے زندگی کویاسیت کے سپرد نہیں ہونے دیا ایسا بھی نہ تھا کہ وہ درد سے ناآشنا رہے جبکہ زخم اور مرہم کی رنگینیوں کو دل وجان پہ محسوس کرتے رہے اور 28نومبر2018 کو اپنی تمام کاوشوں کو ہمارے اور تاریخ کے حوالے کرکے ہماری زندگی سے گم ہوگئے۔
لوگوں کو ڈس گیا تیرا اچھا لباس بھی
صفدر سلیم اب تیری یکتائی ختم ہوئی
انتہائی خوبصورت کلام جو دل کو جھنجوڑتابھی ہے اور آئینہ بھی دکھاتاہے۔
میں تو بے بسی سے نڈھال تھا ترا کیا ہوا
تو رہن جاہ وجلال تھا ترا کیا ہوا
مری بے شمار تھیں خامیاں میں ہوں مانتا
تو جوآپ اپنی مثال تھا ترا کیا ہوا
آنکھیں اشکبار ،لفظِ درد زیدہ، دھڑکنیں بے حال، اور سانسیں شور یدہ کہ آج ہم صفدر سلیم سیال کو روبرو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ ہمارے دلوںمیں دھڑکتے رہیں گے۔ ادبستان ان کے گلدستہ شاعری سے ہمیشہ مہکتا رہے گا۔
روز ملتاہے غم نیا کوئی
زندگی ہے کہ بدعا کوئی
شب مہتاب کوخبردینا
شام ہوتے ہی جل بجھا کوئی
چھان مارا ہے اک زمانے کوئی
تیرا ثانی نہ مل سکا کوئی
تیرگی ہی رہی مقدر میں
چاند کے ساتھ بھی رہا کوئی
دل کی بستی عجیب بستی ہے
اجنبی ہے نہ آشنا کوئی
ہار کرجان دشت روہیؔ میں
پانیوں میں اتر گیا کوئی
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024