یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ہمسایہ ملک ہیں اور ہمسائیگی کا یہ رشتہ 70سال پرانا ہے۔ 1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو دنیا کے نقشے پر جو دو نئے ملک ابھر کر سامنے آئے، اُن کی شناخت پاکستان اور بھارت کے نام سے ہوئی۔ برطانوی راج کے ساتھ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا جو فارمولا طے پایا اُس کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہونا تھے جبکہ باقی حصّہ جس میں ہندوئوں کی اکثریت تھی، بھارت میں شامل کیا جانا تھا۔ جموں و کشمیر میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے طے شدہ فارمولے کے تحت اس حصّے کو بھی اصولی طور پر پاکستان میں شامل کیا جانا تھا۔ لیکن برٹش راج اور گاندھی جی کی بدنیتی اور اُن کی سوچی سمجھی سازش کے تحت جموں و کشمیر کو پاکستان کی بجائے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کا وجود تو عمل میں آ گیا لیکن جموں و کشمیر ان دونوں ملکوں کے درمیان وجۂ تنازع بن گیا۔ جس کے متنازع ہونے کی حیثیت ابھی تک برقرار ہے۔
جموں و کشمیر میں مقامی سطح پر آزادی کی جس سوچ نے جنم لیا اُس نے وقتِ رفتہ کے ساتھ تحریک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ایک بڑی تحریک بن چکی ہے۔ اس تحریک کے جس بھی رہنما یاکارکن نے آزادی کی بات کی اُسے بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا۔ لیکن وہ ڈٹے رہے اور ہندو سامراج کے سامنے کھڑے نظر آئے۔ صرف نوجوان ہی نہیں ، بوڑھے مرد اور خواتین تک اس تحریکِ آزادی کا حصِہ بن چکے ہیں۔ یہ تحریک بڑے تواتر کے ساتھ چل رہی ہے اور اس میں کوئی ’’بریک‘‘ نہیں آیا۔ سری نگر اور جموں کی جیلیں آزادی کے متوالوں سے بھری پڑی ہیں۔ دو لاکھ سے زیادہ کشمیری نوجوان اور بزرگ اپنی دھرتی ماں پر قربان ہو چکے ہیں اور ابھی تک جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج کی کثیر تعداد تحریک آزادیٔ کشمیر کو کچلنے کے لیے جموں و کشمیر میں موجود ہے۔ بھارت اکثر اس مسئلے کو آڑ بنا کر پاکستانی سرحدوں پر چھیڑ خانی کرتا رہتا ہے۔ وہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔ اپنے اسی جنگی جنون کی تسکین کے لیے اُس نے ماہ فروری میں یلغار کی ٹھانی اور آزاد کشمیر میں بالا کوٹ کے مقام پر ایک جنگل میں دد بھارتی جہاز بم برسا کر پاکستانی جنگی جہازوں کے آنے پر راہِ فرار اختیار کر گئے۔ اس واقعہ کے دو روز بعد کنٹرول لائن پر پھر دو بھارتی مِگ جنگی طیاروں نے یلغار کی ابھی وہ پاکستانی حدود میں داخل ہی ہوئے تھے اور دو، تین کلومیٹر تک اندر آئے تھے کہ ہمارے دو جے ایف تھنڈر جنگی طیاروں نے انہیں گھیر لیا اور دونوں کو ہی 30سیکنڈ میں مار گرایا۔
اس سارے واقعہ کی روداد آپ بڑی تفصیل سے ملاحظہ کر چکے ہوں گے۔ لیکن ’’واقعہ‘‘ کے بعد مودی کی جو درگت اپنے ملک میں بن رہی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ بھارتی میڈیا ہائوسز کے اینکرز اور مختلف ٹاک شوز میں آنے والے مہمان، جن کا تعلق مختلف مکتبۂ فکر سے ہوتا ہے، مودی حکومت کی کلاس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا یہ حال ہے کہ پاکستانی قید سے رہا ہونے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے اُس بیان کو جو اُس نے پاکستانی فوج کے حق میں دیا، کا اپنے اپنے چینلز پر مکمل بلیک آئوٹ کر دیا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے ابھی نندن کے بیان کو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہونے سے روک دیا ہے اور اس پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
بھارت میں ایک ایسا ٹاک شو بھی ہوا ہے جس میں کارگل کے محاذ پر جان گنوانے والے بھارتی فوجیوں کی مائیں اور بیوائیں اپنی ہی حکومت کو بُرا بھلا کہہ رہی ہیں اور یہ کہتے ہوئے اُن کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کبھی بھارتی فوج میں بھرتی ہونے کے لئے نہیں بھیجیں گی کیونکہ بھارت سرکار انہیں محاذوں پر مروا دیتی ہے اور اُن کا کوئی خیال نہیں کرتی۔یہ تو خود بھارتی میڈیا کا محاذ ہے جو اپنی ہی حکومت کے خلاف صف آراء نظر آتا ہے، دوسری جانب پاکستانی فوج بھی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بالکل چوکنا اور تیار ہے۔ کنٹرول لائن واقعہ کے بعد بھارت کو یہ اچھی طرح معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان کوئی آسان ہدف نہیں ۔ پاکستانی فوج ناصرف جدید اسلحے سے لیس ہے بلکہ جذبۂ شہادت سے بھی معمور ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔
پاکستانی افواج، چاہے اُس کا تعلق بّری سے ہے، بحری یا ایئر فورس سے، ملک کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ چوکس، مستعدا ور تیار ہے۔جب بھی وطن نے اُسے پکارا، دفاعِ وطن کے لیے اُسے تیار پایا ہے۔ ہمارے ایک کالمسٹ اور شاعر دوست ناصر بشیر نے اپنے شعروں کے ذریعے قوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے:
اگر جنگ کرنے کا سوچا بھی تم نے
تو سن لو کہ ہم بھی قیامت کریں گے
اٹھائی نہ جائے گی تلوار تم سے
گرائی نہ جائے گی دیوار تم سے
لڑے کا نیا عزم اِس بار تم سے
ہم اپنے وطن کی حفاظت کریں گے
محبت کرو گے، محبت کریں گے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024