سانحہ َنیوزی لینڈ میں وزیراعظم عالمی مدبر بن کر ابھری ہیں جنہوں نے دہشت گرد کو بے نام درندہ قرار دیتے ہوئے مظلوم شہدا اور انکے لواحقین کو اپنا ہم وطن کہا جبکہ سارا مہذب یورپ اور امریکہ اس وقت تک گومگو کا شکار تھا۔یورپی فلاسفروں اور دانشوروں کے فلفسہ حیات کے حوالے سے تعلیمات پر خالد جامعی گہری نظر رکھتے ہیں۔سید خالد جامعی گوشہ نشین دانشور ہیں انکے خیالاتِ عالیہ ایک خاص حلقے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ جناب خالد جامعی نے ساری زندگی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق و تصنیف کی نذر کردی، بے باک اور اکل کھرے خالد جامعی کی دلچسپی کا موضوع عالم اسلام ‘اس کے مسائل اور فکری راہنما رہے ہیں۔ اپنے منفرد اسلوب فکر کے سبب جو بھی انکے سامنے آیا مسمار ہوگیا۔ سانحہ نیوزی لینڈ کے حوالے سے جناب خالد جامعی نے مختلف زاویے سے یورپی دانشوروں کی فلاسفی کا تجزیہ کیا ہے جس میں غوروفکر کے کئی نئے پہلو متعارف کرائے گئے ہیں جو قارئین نوائے وقت کے ذوق مطالعہ کیلئے پیش خدمت ہیں ۔
15 مارچ کونیوزی لینڈ کی دو مساجد پر دہشت گرد بریٹن ہیری سن کے حملوں اورپچاس نمازیوں کو شہید کرنے کے سانحے نے عالم اسلام کو سنہری موقع فراہم کیا کہ وہ مغرب کے آزاد خیالی اوراسکی انسانیت کے جھوٹے دعوے اورانسانی حقوق کی حقیقت پہچان سکیں۔ ہمارے مفکرین’ عالم اسلام میں ابھی تک مغرب کے تین عقائد’ آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے عقائد کی اسلامی تشریحات ہی پیش کی جارہی ہیں۔ ہمارے بے شمار عالم و فاضل حضرات مغرب کی اسلام کاری (Islamization of West)میں مصروف ہیں۔مغربی فلسفے میں انسان کی تعریف اورانسان کی حقیقت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے سانحہ نیوزی لینڈ کے تناظر میں از سرنو انہیں پڑھنے اورتفہیم مغرب کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرینگے۔
٭نیوزی لینڈ میں 50نمازیوں کو شہید کرنیوالا دہشت گرد صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ گوراہے اورسفید فام نسل دنیا کی اعلی ترین نسل ہے۔
٭صدر ٹرمپ نے سفید فام نسل پرستی کی حمایت کرکے لبرل ازم کے اصل چہرے کی نقاب کشی کردی اورکانٹ کی علمیاتی نسل پرستی۔ (Epistemological Racism) کے فلسفے کودوبارہ زندہ کردیا جسے جان رالس کے لبرل ازم کے نئے فلسفے نے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ ٭عالم اسلام کو ہمیشہ ٹرمپ کا احسان مند رہنا چاہیے ٭جان رالس نے لکھا کہ جو آزادی کے عقیدے کونہیں مانتا اسے جراثیم اورجنگوں کی طرح ختم کردیاجائے۔ بریٹن ہیرسن نے رالس کے حکم پرعمل کرکے مسلمانوں کو شہید کردیا اس نے اپنے عقیدے اورایمان کی شہادت اپنے عمل سے دے دی۔مگرعالم اسلام لبرل ازم کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے وہ اسے ایک فرد کا فعل سمجھ رہا ہے حالانکہ اس کے پیچھے جان لاک اور کانٹ کا فلسفہ موجود ہے۔ ہمارے مسلم لبرل مفکرین نے ان فلسفوں کونہیں پڑھا۔٭مفتی عدنان کاکاخیل حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ بریٹن ہیری سن کو پھانسی نہیں دی جائے گی انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہیومن رائٹس کے تحت UNOنے پھانسی کی سزاختم کردی کیونکہ انسان افضل مخلوق ہے اسے پھانسی نہیں دی جاسکتی۔آصف زرداری نے بھی پھانسی کی سزاختم کردی تھی لیکنTTPکی وجہ سے پھانسی کی سزاکو بحال کردیاگیا۔ ٭دنیا بھر کے خلاف مغرب کی اجتماعی دہشت گردی اوریورپی لوگوں کی انفرادی دہشت گردی کا علمی جواز کانٹ اورلاک نے مہیا کیاتھا۔
کانٹ نے انسانوں کوچاراقسام میں رکھا اورگوری نسل کوسب سے برترنسل قرار دیا کیونکہ انکے پاس (Rational Capacity)ہے۔لہذا یورپی اقوام پوری دنیا پر حاکمیت قائم کرسکتی ہے اس فلسفے کے بعد ایمپریل ازم اورکالونیل ازم کاآغازہوا۔ تمام غیریورپی اقوام Otherبن گئی۔ان کو انسان بنانے کے لیے غلام بنانا ضروری تھا لہذاسفید آدمی، سفید انسانوں کابوجھWhite men Burden جدیدمغربی فلسفہ کا بوجھ ہے۔٭دہشت گرد بریٹن ہیری سن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ہیروقراردیا اور فیس بک پر لکھا Trump is symbol of white Identityٹرمپ سفید فارم نسل پرستی کی علامت ہے۔اسی کانام لبرل ازم ہے۔٭بریٹن ہیری سن نے سانحے سے دو دن پہلے بدھ کے دن فیس بک پر اپنے اسلحے کی نمائش کی۔مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا پروگرام لکھا اوران پرحملے کا اعلان کیا۔ حکومت خاموش رہی اورملزم نے تین دن بعد اپنے قول پرعمل کرکے دکھا دیا۔٭مغرب اورامریکہ کبھی بھی سفید فام کودہشت گرد قرارنہیں دیگا۔ وہ اس کو پاگل،جنونی،نفسیاتی مریض، بیمار، ڈیپریسڈ، احمق تو کہہ دینگے مگر انکے فلسفے میں کوئی گورا شخص فطری،جنیاتی اورنامیاتی طورپر کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ یہی کانٹ کا فلسفہ(Philosophy of Anthropology) ہے۔ دہشت گرد صرف غیریورپی اقوام ہی ہوسکتی ہے اس لیے انہیں انسان بنانا ضروری ہے مسلمان ابھی تک انسان نہیں بن سکے کیونکہ وہ خدا اور اْس کے رسولؐ کے ماننے والے ہیں وہ انسان نہیں بلکہ عبدہیں۔
٭کانٹ کے فلسفے کی تفصیلWhat is Enlightement۔ میں پڑھیے اس کے تحت انسان صرف وہ ہے جو عالم دین اورکتاب اللہ کو تسلیم نہیں کرتا اور خود آزادی سے اپنی زندگی کے فیصلے کرتا ہے۔ وہ کوئی فیصلہ کسی خارجی ذریعے کے کہنے سے نہیں کرتا کانٹ نے لکھا کہ انسان خود مقصود ہے یعنیEnd in Itselfدوسرے معنوں میں وہ خود خدا ہے یعنی کسی دوسرے مقصد کاذریعہ (Mean)نہیں۔ مسلمان ابھی تک اس فلسفے کو تسلیم نہیں کرتے وہ اپنے وجود کو صرف اورصرف اللہ کی عبادت کا ذریعہ سمجھتے ہیں ان کا جسم خدا کی امانت ہے ان کی ملکیت نہیں۔ انسانی حقوق کے فلسفے کے تحت وہ انسان کی تعریف پر پورا نہیں اترتے وہ ہمیشہ خدا اورا س کے رسولؐ سے راہنمائی طلب کرتے ہیں لہذا جو انسان ہیں نہیں اسے قتل کیا جاسکتا ہے۔جان لاک نے اپنے فلسفے کے تحت ریڈانڈینزRed Indiansکے قتل عام کی اجازت اس لیے دی تھی کہ وہ انسان نہیں ہیں۔ ایک کتاب پڑھ لیں۔ The Dark Side of Democracy
٭دنیا بھر کے مسلمان مغرب اوریورپ کے دارلحرب میں آباد مسلمانوں کی حفاظت کامطالبہ حربیوں سے کررہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوئی مغرب میں آبادان مسلمانوں سے نہیں کہہ رہا کہ تم دارلحرب چھوڑ کردارالامن میں آجاؤ دہشت گرد بریٹن ہیری سن مسلمانوں کو Invader Immigrantکہہ رہا ہے اورپورے یورپ کامسلمانوں پریہی الزام ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسے ملکوں میں کیوں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں کے لوگ اسلام کی وجہ سے ان مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے صدربننے کے بعد مغرب میں ہرجگہ مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں مگر ایک بھی مسلمان ایسا نہیں جو اپنی عزت، غیرت، دینی حمیت کے تحت اپنے ایمان کااظہاراپنے عمل سے کرسکے اورمغرب کی شہریت کے کاغذات کوپھاڑ کراپنے ملک میں آجائے۔ہرعقیدہ قربانی مانگتا ہے اورہم اپنے عقیدے اورایمان کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔
کیسا خداکیسا نبی
پیسہ خداپیسہ نبی
٭ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ مغرب اس واقعے کو کبھی بھی Terrorism نہیں کہے گا۔ اس کا ثبوت ہیلری کلنٹن کا نیوزی لینڈ کے واقعے کے بعد کا بیان ہے اس نے کہاکہ “We must continue to fight perpetuation of Islamophobia” اگر ہیلری کلنٹن Perpetuation of terrorism کا کہتی تو بات سمجھ میں آتی۔یورپ کی دہشت گردی اسلامی فوبیا اور غیر گورے کا تشددTerrorismہے۔
فلسفیانہ موشگافیوں سے قطع نظر دہشت گردی کے خلاف سب سے شدید ردعمل نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا سامنے آیا ہے انہوں نے کہا کہ میں دھشت گرد کا نام نہیں لوں گی ہم اسے بے نام کردیں گے اس کا نیوزی لینڈ یا ہمارے پرامن معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے
مساجد پر حملے کے بعد وہاں کے حکمرانوں نے دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کو بہترین سبق پڑھایا ہے۔ دہشت گرد کو بروقت کاروائی کر کے پکڑ کرعدالت میں پیش کیا۔ ہر سطح پر اس سے شدید نفرت کا اظہار کیا گیا۔ عوام نے مسلمانوں سے یکجہتی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ لوگ مساجد میں آکر مسلمانوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے تاکہ وہ اطمینان سے نماز ادا کرسکیں۔ مساجد کے باہر ہزاروں افراد نے پھول رکھے۔ حلال کھانے بانٹے گئے۔ مسلمان سرکاری افسر حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے عوام میں اور میڈیا پر آئے قرآن مجید کی آیات اور دعائوں کیساتھ خصوصا مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ حکومت آپکے ساتھ ہے۔ پارلیمنٹ میں جس کے 120 ارکان میں، صرف ایک ایرانی نژاد مسلمان رکن ہے، اس سے قرآن پاک کی تلاوت کروائی گئی۔ وزیر اعظم نے گورے دہشت گرد کے مقابل کھڑے ہونیوالے پاکستانی اور افغانی مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ شہدا کی یاد میں جمعے کے روز سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے اذان نشر کی جائیگی۔ اللہ اکبر کی صدائیں گونجیں گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024