جب سے تحریک انصاف برسراقتدار آئی ہے۔ اُسے معاشی، سیاسی اور خارجی محاذ پر شدید ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم عمران خان نے لیڈ ٹو فرنٹ لیڈر شپ کی مثال قائم کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہِ عرب امارات سے مالی امداد حاصل کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا اور دوسرا ہندوستان کی جارحیت کے مقابلے میں امن کی بات کر کے پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرکے پوری قوم کے دل جیت لیے۔ عمران خان کی مدبرانہ خارجہ پالیسی نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ دنیا کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ مسئلہ کشمیر دنیا کا خطرناک ترین تنازعہ ہے جس کا پرامن حل ضروری ہے کیونکہ اسکی وجہ سے دو جوہری طاقتیں جنگ کے دہانے پر آ گئی تھیں مگر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی نے دونوں ملکوں میں کشیدگی کوکم کیا جس کا اعتراف ہندوستان کے صائب الرائے حلقے میں بھی کیا گیا۔ تاہم ابھی تک عمران خان کو اندرونی محاذ پر معاشی، سیاسی اور انتظامی معاملات کوسنبھالنے کیلئے مکمل یکسوئی کی ضرورت ہے تو ایسے میں عمران خان نے بطور چیئرمین تحریک انصاف پاکستان ایک بڑا زبردست اور صائب فیصلہ کیا ہے جسکی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکنوں میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عمران خان کی ایک عرصے سے خواہش اور ارادہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ایک اداراتی ساخت ہو اور اس کا سٹرکچر ڈیموکریٹک ہو اور اسکی قیادت گراس روٹ لیول سے جنم لے اور پاکستان کیساتھ نظریاتی کمٹمنٹ رکھنے والے نوجوان تحریک انصاف کا ہراول دستہ ہوں۔ چنانچہ عمران خان نے اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے ایک دیرینہ ساتھی سیف اللہ نیازی کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا ہے۔ سیف اللہ نیازی نوعمری سے ہی عمران خان کا وفادار ساتھی ہے۔ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اور پھر تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر کام کرتے ہوئے سیف اللہ نیازی نے دن رات تحریک انصاف کیلئے کام کیا اور اپنی تنظیمی صلاحیتوںکو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کے ہر شہرمیں اسکے بنیادی یونٹس قائم کیے اور نظریاتی کارکنوں کی ایک ایسی کھیپ تیاری کر دی جس نے عمران خان کے نظریے کوگھر گھر پہنچایا اور تحریک انصاف کو پاکستان کے نوجوانوں اور خواتین کی مقبول ترین پارٹی بنا دیا۔ مگر جب تحریک انصاف لاہور مینار پاکستان کے جلسے کے بعد اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچی تو پھر اچھے ، برے ہر طرح کے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے تحریک انصاف کا رُخ کیا اور پھر جیسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جونظریاتی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا خون پسینہ نظریاتی جدوجہد سے بہایا ہوتا ہے اُن کو قدم بقدم کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا باصلاحیت اور پرعزم سیف اللہ نیازی کو کرنا پڑا۔ یہ وہ شخص تھا جب تحریک انصاف چھوٹی سی جماعت تھی تو وہ بیک وقت عمران خان کاسیکرٹری ، ڈرائیوراورمحافظ ہوتا تھا۔
ایک دفعہ وہ سخت بخار میں مبتلا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے قائد کو لے کر کئی گھنٹے کی ڈرائیو کر کے میانوالی پہنچا۔ وہ عمران خان سے اس قدر عقیدت اور محبت رکھتا ہے کہ وہ عمران خان اور پارٹی کیلئے سب کچھ قربان کرنے پر تیار رہتا ہے۔ سیف اللہ نیازی کی شادی بہت عرصہ پہلے ہو جاتی مگر نوجوانی میں ایک دفعہ وہ اپنی شادی کا کارڈ لے کر عمران خان کے پاس گیا اور انہیں شادی میں شرکت کی دعوت دی۔ جس پر عمران خان نے سیف اللہ نیازی کوکہا کہ اگر تم اس موقع پر شادی کر لو گے تو پارٹی کو کون منظم کریگا۔ سیف اللہ نیازی خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئے اور اپنے گھر والوں کو شادی ملتوی کرنے کا کہا۔ جب تحریک انصاف میں ارب پتیوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا تو سیف اللہ نیازی جو کہ حساس دل انسان ہیں اور عزت نفس پر سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں ہیں وہ خاموشی سے پارٹی معاملات سے الگ ہو گئے کیونکہ اُنہیں ایسا لگا
؎ جب بھی اہل چمن کو ہماری ضرورت پڑی
گردن سب سے پہلے ہماری کٹی
پھر بھی اہل چمن یہ کہتے ہیں
یہ چمن ہمارا ہے تمہارا نہیں
گزشتہ دو سالوں سیف اللہ نیازی پارٹی میں زیادہ متحرک نہیں تھے۔ اس دوران اُنہوں نے اپنا گھر بھی بسا لیا۔ عمران خان کے ساتھ ان کا ذاتی تعلق برقرار رہا مگر پارٹی کے کسی اہم عہدے پر نہ ہوتے ہوئے بھی وہ پارٹی کیلئے بطور کارکن اور ممبر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ مگر اُنہوں نے نہ تو الیکشن لڑا اور نہ ہی کسی حکومتی عہدے کیلئے لابنگ کی۔ تاہم اُنکے لگائے گئے پودے تنومند درخت بن کر بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر پہنچ گئے۔ گزشتہ چھ ماہ سے تحریک انصاف کے تمام نامور افراد حکومتی عہدوں پر براجمان ہوکر اپنے اپنے حلقوں کے کارکنوں کو یکسر بھلا چکے ہیں۔ ان سب باتوں کا عمران خان کو شدید قلق ہے۔ وہ اپنے وزراء اور ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ اپنے کارکنوں کو عزت دو۔ اُن کیساتھ رابطہ رکھو۔ مگر حکومتی عہدوں پر براجمان افراد اپنی مصروفیت یا ذاتی مسائل کی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو نظراندازکر رہے ہیں چنانچہ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے سیف اللہ نیازی کو طلب کیا اُنہیں یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ بطورچیف آرگنائزر پورے پاکستان ، گلگت بلتستان، اسلام آباد اور غیر ممالک میں پارٹی کی تنظیم نوکریں۔ بنیادی یونٹس قائم کر کے پارٹی کو گراس روٹ لیول تک منظم کریں تاکہ تحریک انصاف کے ساتھ منسلک کروڑوں نوجوان بیگانگی کا شکار نہ ہوں۔ ان حالات میں سیف اللہ نیازی کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔اُنہیں نہ صرف پارٹی میں ازسرنو مخلص اور نظریاتی کیڈر کوتشکیل دینا ہے بلکہ جن مخلص کارکنوں کو پارٹی کیلئے قربانیاں دینے کے باوجود حکومت اور پارٹی میں اُنہیں انکی حیثیت کیمطابق جائز حیثیت نہیں حاصل ہوئی ہے۔ اس کیلئے سیف اللہ نیازی صاحب کو ان سب ورکرز کا مورال بلند کرنا ہے کیونکہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے حکومتی اراکین اور وزراء کی ذاتی حیثیت بالکل نہیں ہے اور عوام نے انہیں جو ووٹ دئیے ہیں وہ صرف اور صرف عمران خان کے نام اور فلسفے کی وجہ سے دئیے ہیں لہٰذا تحریک انصاف میں شخصیات کو سیاسی حیثیت سے زیادہ اس کا نظریہ اور مشن ہونا چاہئے۔ دیکھتے ہیں سیف اللہ نیازی تحریک انصاف کومتحرک اورنظریاتی پارٹی بنانے کیلئے کیا کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے آئین کی تشکیل نو اور پارٹی کے بنیادی ڈھانچے کو منظم کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں مگر اسکے علاوہ اُنہیں پارٹی کے پروگرام کو تعلیم یافتہ نوجوانوں تک پہنچانے کیلئے مسلسل سیمینارز ورکشاپس اور مختلف موضوعات پر لیکچرز کا بھی اہتمام کرنا ہو گا۔ جدید دور میں پاکستان کوجن معاشی، سیاسی ، خارجی ثقافتی اورمذہبی ایشوز کا سامنا ہے اُنکے متعلق مختلف آراء رکھنے والوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا بھی تحریک انصاف کے تھنک ٹینک کا کام ہے مثلاً اگر پارٹی کی سطح پر تحریک انصاف کالا باغ ڈیم کے ایشو پر مختلف ماہرین کی آراء سے کوئی اتفاق رائے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس سے بڑھ کر پاکستان کی کیا خدمت ہو سکتی ہے لہٰذا بطور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش مسائل پر پارٹی پالیسی کو حکومتی ایوانوں تک پہنچائیں۔ مثلاً پارٹی کا منشور ہر حال میں حکومتی پالیسیوں میں نظر آئے۔ اگر چیف آرگنائزر کے طور پر سیف اللہ نیازی صاحب پارٹی کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے اپنا تجربہ اور صلاحیتیں استعمال کرینگے تو ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف جدید ڈیموکریٹک پارٹی کی شکل اختیار کر جائے۔ بہرحال آج جب انکے ساتھی اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ سیف اللہ نیازی کو ایک بار پھر اس صورتحال کا سامنا ہے …؎
ایک اوردریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراترا تو میں نے دیکھا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024