وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملک کی زرعی معیشت کی ترقی کیلئے اہم اقدامات اور 30 نکاتی ایجنڈے کی منظوری
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزارتوں اور سینئر حکام کا انٹرٹینمنٹ و تحائف بجٹ ختم کرنے کی منظوری دیدی گئی۔ پانچ گھنٹوں پر محیط اس اجلاس میں 30 نکاتی ایجنڈے کے متعدد نکات کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال پر بھی غور کیا گیا اور مختلف اداروں کے سربراہوں کے تقرر کی منظوری دی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین نے اجلاس کے بعد میڈیا کو اجلاس کے فیصلہ کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام میں پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا اور پانچسالہ منصوبے کے تحت 18 بڑی زرعی سکیموں کیلئے 290‘ ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ پانچ سالوں میں حکومت کی خصوصی توجہ زراعت پر رہے گی۔ حکومت لائیو سٹاک اور فشریز کے شعبے میں کام کرنا چاہتی ہے۔ خوردنی تیل کے استعمال کیلئے آگاہی مہم چلائی جائیگی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکموں کو بار بار تلقین کی گئی ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورتحال کا ادراک کریں‘ بیوروکریٹس کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ انکے بقول حکومت کو ڈیجیٹل کرنے کا ایک روڈمیپ دیا جائیگا۔ پاکستان میں اس وقت مشکل معاشی حالات ہیں جن سے عہدہ برأ ہونے کیلئے ہمیں معاشی اصلاحات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ انکے بقول اجلاس میں گیس صارفین کو اضافی بل بھجوانے کے معاملہ پر بھی غور کیا گیا۔ یہ اضافی بل 2016ء سے بھیجے جارہے ہیں اور اضافی چارج سے 32 لاکھ صارفین اووربلنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گیس کی چوری میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ قومی اقتصادی و معاشی ترقی کے حوالے سے ماضی میں غلط ترجیحات متعین کی جاتی رہی ہیں اور ملکی معیشت کا زیادہ تر زراعت پر دارومدار ہونے کے باوجود اس شعبہ کو نظرانداز کیا جاتا رہا اور اجناس کی کاشت و پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو مراعات ہی نہیں‘ مطلوبہ سہولتوں کی فراہمی سے بھی گریز کیا جاتا رہا۔ اسی طرح کسان اور آڑھت کے درمیان ربط و ضبط کیلئے بھی کسی ٹھوس میکانزم کی جانب توجہ نہ دی گئی۔ بیج‘ کھاد اور ہاروسٹنگ کے مطلوبہ آلات و مشینری کے نرخ بھی بتدریج بڑھ کر کاشتکاروں اور کسانوں کے اقتصادی مسائل میں اضافے کا باعث بنتے رہے جبکہ مارکیٹ میں کسان کو اسکی فصل کی مناسب قیمت بھی وصول نہ ہونے کے باعث زراعت کے پیشہ سے وابستہ طبقات کی مایوسیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کمیشن اور کک بیکس کی علت میں پڑے حکمران قومی برآمدات کے فروغ کے بجائے انکی حوصلہ شکنی کرتے اور ملک میں پیدا ہونیوالی فصلوں اور چینی تک کی درآمد کے راستے کھولتے رہے چنانچہ ملکی پیداوار بے وقعت ہو کر رہ گئی جبکہ یہی اجناس بھاری نرخوں پر درآمد کرکے زراعت کی ترقی اور عوام کو اپنے ہی ملک میں پیدا ہونیوالی اجناس کی معقول نرخوں پر فراہمی کے راستے مسدود کئے جاتے رہے۔
زرعی معیشت والے ملک میں زراعت ہی کو نظرانداز کرنا بذات خود ایک المیہ ہے جس کے قومی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے مگر حکمرانوں نے قومی ترجیحات کا تعین کرنیوالی پالیسیوں میں اپنے ذاتی مفادات و کاروبار کو ہی فوقیت دیئے رکھی۔ پھر ملک میں بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران نے رہی سہی کسر بھی نکال دی جس کے صنعتی شعبہ کے علاوہ زراعت پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہونے لگے جبکہ بجلی‘ تیل اور گیس کے روزافزوں نرخوں نے بھی ہماری زرعی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یہ امر واقع ہے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں‘ ناقص ترجیحات اور غلط بخشیئوں کے باعث ہی قومی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو پائی اور اقتصادی ترقی ایک ڈرائونا خواب بنی رہی ہے۔ اس صورتحال میں ملک کے عوام کا بھی اقتصادی مشکلات و مسائل میں جکڑے جانا ایک فطری امر تھا اور یہی وہ حالات ہیں جو سسٹم کی اصلاح کے متقاضی رہے ہیں تاکہ سلطانیٔ جمہور کے ثمرات حقیقی معنوں میں جمہور تک بھی منتقل ہو سکیں۔ ان حالات میں جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تو عوام کی توجہ انکے پارٹی منشور کی جانب مرکوز ہوئی۔ حکمرانوں کے اللوں تللوں اور اپنی محرومیوں سے عاجز آئے عوام کو فی الواقع سسٹم میں ایسی انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت تھی جو انکے گھمبیر ہوتے روٹی‘ روزگار اور مہنگائی کے مسائل میں سے کچھ نہ کچھ ریلیف کا راستہ ہموار کرسکیں۔ اسی بنیاد پر عوام نے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور اقتصادی استحکام کیلئے عمران خان کے پروگراموں اور اعلانات پر لبیک کہنا شروع کیا اور پھر جولائی 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاقی اور صوبائی اقتدار کا مینڈیٹ دے دیا۔
عوام کا مینڈیٹ آج حکمران پی ٹی آئی سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ وہ ایک جدید جمہوری‘ اسلامی‘ فلاحی ریاست کی تشکیل کیلئے حکومت کی ترجیحات اور معاشی پالیسیوں کا ازسرنو تعین کرے اور قومی معیشت کو مستحکم بنانے کی جانب توجہ دے جس میں زرعی معیشت کو بہرصورت فوقیت حاصل ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے اقتدار کے آٹھ ماہ پورے ہونے کے قریب ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کی ترجیحات کا تعین کرکے حکومتی گورننس اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے حکومت کے ساتھ عوام کی توقعات مزید بڑھائیں تاہم حکومت فی الوقت ان توقعات پر پوری نہیں اترسکی۔ اسکے برعکس حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی‘ دو ذیلی میزانیوں اور بجلی‘ گیس‘ پانی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر ماہ اضافہ ہونے کے باعث عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل مزید بڑھے ہیں جس کے باعث عوام میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ ان کیلئے یہ صورتحال بھی مایوس کن ہے کہ برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت اور ہمارے دیرینہ دوست چین کی جانب سے قومی معیشت کے استحکام کیلئے مختلف بیل آئوٹ پیکیج ملنے کے باوجود حکومت قوم اور قومی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر نکالنے کی کوئی ٹھوس تدبیر نہیں کر سکی اور اس سے 12‘ ارب ڈالر کے قرضے کی امید میں عوام پر مزید مہنگائی اور نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے راستے بھی ہموار کئے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات اور اسکی جانب سے اقتصادی اصلاحات کے تجویز کئے جانیوالے اقدامات عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ لادنے کے علاوہ قومی وقار و خودداری کو بھی چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔
حکومت نے بے شک اپنی متعینہ ترجیحات کی بنیاد پر کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کیلئے متعدد مؤثر اقدامات اٹھائے ہیں اور احتساب کے عمل میں اپنی پارٹی کے بعض اہم لوگوں کے بھی نیب کی گرفت میں آنے کو خوشدلی سے قبول کیا ہے تاہم عوام کو انکے گوناںگوں مسائل پر اب تک کوئی خاطرخواہ ریلیف نہ مل پانے کا عذر سابق حکمرانوں کی جانب سے قومی خزانے اور وسائل کی لوٹ مار کا ہی پیش کیا جارہا ہے جس سے عوام کو زیادہ دیر تک مطمئن نہیں رکھا جا سکتا۔ اس تناظر میں حکومت نے بہرصورت عوام کی توقعات پر پورا اترنے اور انکے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچنے دینے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے اور جامع و پائیدار پالیسیاں وضع کرنی ہیں۔ اگر وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر قومی معیشت کی ترقی کو مہنگائی میں مزید اضافہ سے منسوب کرکے عوام کی چیخیں نکالنے کا اہتمام کرینگے تو اس سے حکومت پر عوام کا اعتماد متزلزل ہی ہوگا۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بذات خود عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کا احساس و ادراک ہے اور وہ ریاست مدینہ کا تصور دیکر ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کی لگن رکھتے ہیں چنانچہ وہ حکومتی گورننس میں نظر آنیوالی بے ضابطگیوں کا خود بھی نوٹس لیتے رہتے ہیں اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی عوام کی فلاح کے معاملات کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسی تناظر میں زراعت کے شعبہ کو ترقی دینے کے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور زرعی ایمرجنسی پروگرام میں پیش رفت کیلئے بعض اہم اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے یقیناً ملک کی زرعی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے اور وہ استحکام سے ہمکنار ہوگی۔ اس سے کسان خوشحال ہوگا تو وہ قومی خوشحالی میں بھی معاون بنے گا۔ اس سلسلہ میں 18 بڑی زرعی سکیموں کیلئے پانچ سالہ منصوبہ کے تحت 290‘ ارب روپے مختص کرنا زرعی ترقی کی جانب بہت بڑا قدم ہے جس کے ثمرات کسان ہی نہیں‘ عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔ اسی طرح اجلاس میں وفاقی وزارتوں اور ان سے متعلق سینئر حکام کے تفریحی اور تحائف بجٹ کو ختم کرنے کے فیصلہ کے بھی قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ یہ درحقیقت وزیراعظم کی کفائت شعاری کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ہی ایک اہم قدم ہے جبکہ ایسی فضول خرچیوں پر استعمال ہونیوالی رقم عوامی فلاح کے منصوبوں پر لگے گی تو ان کا اقتصادی بوجھ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ حکومت کو بہرصورت اب عوامی فلاحی منصوبوں کی جانب ہی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تاکہ سلطانیٔ جمہور کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچائے جاسکیں۔