سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے نیب سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کر دئیے اور ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ فاضل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ پہلی رپورٹ میں نواز شریف کی عمر 65 اور دوسری میں 69 سال ہے۔ بے شک نواز شریف سزا ہونے کے بعد واپس آئے، نواز شریف ضمانت کے باوجود بیرون ملک نہیں جا سکتے، جن کا ٹرائل ہو رہا ہے وہ بھی واپس نہیں آئے ، سزا یافتہ کیسے واپس جائے گا۔
سپریم کورٹ میں پیش کی جانیوالی رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم کا بلڈ پریشر کافی ہائی ہے۔ انہیں گردے میں پتھری ہے، شوگر اور دل کے عارضے کے ساتھ ہیپاٹائٹس بھی ہے۔ وہ لندن میں اپنا علاج کراتے رہے ہیں۔ صحت کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست کا مقصد بھی لندن سے علاج کرانا بتایا گیا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ان کی ضمانت ہو جاتی ہے تو بھی وہ لندن نہیں جا سکیں گے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے میاں نوازشریف کے ضمانت کے باوجود علاج معالجہ کیلئے ملک سے باہر نہ جاپانے کے واضح عندیہ کے بعد اب بادی النظر میں انکے بیرون ملک جانے کی کوئی گنجائش نہیں نکل پائے گی اس لئے انہیں اپنی بڑھتی ہوئی خرابیٔ صحت کے پیش نظر ملک میں دستیاب علاج معالجہ کی سہولتوں سے ہی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے ان کو علاج کی ممکنہ سہولتیں فراہم کرنے کی پیشکش کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے حکومت کی آفر کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ علاج کے نام پر تضحیک اور تذلیل برداشت نہیں کر سکتے، جس طرح وزرا اور لیگی لیڈر شپ کی طرف سے میاں نواز شریف کے صحت ، علاج اور جیل میں ملاقاتوں کے حوالے سے بیان بازی ہوتی رہی اس سے پوائنٹ سکورنگ کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے۔ اب سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 26 مارچ کو ہو گی۔ میاں نواز شریف کو لاحق عوارض پوری احتیاط اور فوری علاج کے متقاضی ہیں، وہ اپنی صحت کو ترجیح دیں اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ قید کے دوران دستیاب سہولتوں سے فائدہ ضروراٹھائیں۔ صوبائی وزیر اطلاعات صمصام بخاری نے بیان میں کہا کہ عدالت نواز شریف کو بیرون ممالک علاج کی اجازت دیتی ہے تو حکومت رکاوٹ نہیں بنے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024