صوبائی دارالحکومت میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا اپنے مطالبات کے حق میں دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ فیصل چوک میں پنجاب بھر کی محکمہ صحت کی خواتین ورکرز نے دھرنا دئیے رکھا۔ حکومتی نمائندوں کی طرف سے کوئی خاطر خواہ مثبت پیغام نہ ملنے کی وجہ سے احتجاج پورا دن جاری رہا اور اگلے روز بھی احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ دوسری جانب پنجاب بھر کے پیف پارٹنرز نے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کی مبینہ تعلیم دشمن پالیسی اور پیف انتظامیہ کی چیرہ دستیوں کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حصول کیلئے ناصر باغ لاہور سے چیئرنگ کراس تک ریلی نکالی اور دھرنا دے دیا۔ ادھر لبرٹی میں دو روز سے کھیلوں سے وابستہ خصوصی افراد بھی احتجاج کر رہے ہیں۔
احتجاج اور پرامن مظاہرے ہر شہری اور طبقے کا حق ہے مگر عوام کی زندگی اجیرن کرنا، ٹریفک بلاک کر کے ایمبولینسزاور طلباء طالبات کا راستہ روکنا کسی کا حق نہیں۔ ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کسی کے ساتھ پولیس وکلا یا ڈاکٹر بدسلوکی کریں وہ سڑک بلاک کرکے ٹریفک جام کر دیتا ہے۔ اس کیلئے اژدہام کی ضرورت نہیں۔ تین افراد سڑک کے درمیان رکشہ کھڑا کر دیں تو اطراف میں ٹریفک کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز یا خصوصی افراد باقاعدہ مظاہرے کریں‘ دھرنا دیں تو پورا شہر جام ہوسکتا ہے۔ اسکا احساس حکومت اور مظاہرین دونوں کو ہونا چاہئے۔ حکومت ایسے احتجاج اور مظاہروں سے قبل صورتحال کوبگڑنے سے بچانے کی کوشش کرے۔ کسی بھی طبقے کے جائز مطالبات پر غور کرتے ہوئے حل کرنے کی پوری کوشش کرے۔ مظاہروں سے شہری زندگی ڈسٹرب اور معاشرے میں تشویش محسوس کی جاتی ہے۔ کاروبار زندگی تلپٹ ہو کے رہ جاتا ہے۔ فریقین لچک سے کام لیں تو صورتحال کے بگڑنے کی نوبت نہیں آتی۔ اُمید کی جانی چاہئے کہ فریقین ہوش کے ناخن لیتے ہوئے معاملات باہم مل بیٹھ کر طے کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024