سپریم کورٹ کے حکم پر نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مطلوب سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد بدھ کو اچانک سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے سامنے پیش ہو گئے ۔ اس موقع پر عدالت نے حفاظتی ضمانت دینے کی راؤ انوار کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں ڈاکٹر رضوان ، ولی اللہ اور ذوالفقار لاڑک شامل ہیں ۔ جبکہ عدالت نے راؤ انوار کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا ہے ۔ عدالت نے آئی جی سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ کو حکم دیا ہے کہ وہ راؤ انوار کو سیکیورٹی فراہم کریں ۔ عدالت نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت نے راؤ انوار کے منجمد بینک اکاؤنٹس کھولنے کا حکم دیا ہے ۔ راؤ انوار احمد ڈرامائی انداز میں بدھ کے روز سخت سیکیورٹی میں سفید رنگ کی کار میں سپریم کورٹ پہنچے ۔ راؤ انوار جب سپریم کورٹ پہنچے تو انہوں نے سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور منہ پر ماسک پہنا ہوا تھا ۔ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کے بارے میں ازخود نوٹس کی بدھ کو سماعت شروع کی تو را انوار کو ایک سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت لایا گیا۔سیاہ کپڑوں میں ملبوس را انوار نے چہرے پر سرجیکل ماسک پہنا ہوا تھا۔ اس موقع پر را انوار کا کہنا تھا کہ انھیں سندھ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات ہیں جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کن لوگوں کو اس کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر را انوار نے کہا کہ اس کمیٹی میں انٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل ہونے چاہییں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ان اداروں کے اہلکار کیوں شامل کروانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں حیرانگی ہے کہ آپ نے کتنی دلیری سے ہمیں دو خط لکھے اور اتنا عرصہ روپوش رہے اور کسی ادارے کو آپ کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔راؤ انوار 19 جنوری سے روپوش تھے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت راؤ انوار سے سوالات پوچھے تو راؤ انوار بول نہیں پا رہے تھے اس پر راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ راؤ انوار نے عدالت کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے عدالت پر احسان نہیں کیا۔ اتنے دن راؤ انوار کدھر رہے۔ آپ تو بہت دلیر ہیں۔ آپ تو لوگوں کو گرفتار کرتے تھے آپ خود اس کیس میں عدالت سے چھپتے رہے۔ آپ کہاں رہے۔ راؤ انوار کا کہنا تھا کہ میری زندگی کو خطرات تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ راؤ انوار کو ابھی حراست میں لے لیں۔ چیف جسٹس نے حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مفرور کے ساتھ قانون کی کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے رہے ہیں کیونکہ اب توہین عدالت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس کھول دیئے جائیں۔ اکاؤنٹس اس لئے کھولے جائیں کہ ان کے بچوں کو روزی روٹی مل سکے۔ راؤ انوار کے وکیل کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس راؤ انوار کے خلاف ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار ساری زندگی سندھ پولیس میں رہے۔ یہ تو بڑے دلیر تھے۔ انہوں نے لوگوں کو گرفتار کیا لیکن یہ خود چھپتے پھر رہے تھے۔سماعت کے موقع پر عدالت میں مقتول کے ورثا کے علاوہ سندھ کے آئی جی اور دیگر اعلی حکام بھی موجود ہیں۔را انوار نے نقیب اللہ محسود کو شاہ لطیف ٹان کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا تاہم بعدازاں تحقیقات میں یہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا تھا۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا از خود نوٹس لیا تھا اور را انوار کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔را انوار روال سال 19 جنوری سے روپوش تھے اور عدالتِ عظمی نے ان کی گرفتاری کے لیے ملک کے خفیہ اداروں کو بھی قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کی مدد کرنے کو کہا تھا۔خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کی گذشتہ سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ را انوار اب بھی پیش ہو جائیں تو انھیں تحفظ مل سکتا ہے۔کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹان میں جعلی پولیس مقابلے کے دوران قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر را انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔را انوار کی پیشی کے موقع پر سپریم کورٹ اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جہاں اسلام آباد پولیس سمیت سندھ پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات تھی۔سپریم کورٹ نے راانوار کو گرفتار کرنے کا بھی حکم دے دیا، تاہم انہیں کمرہ عدالت سے باہر آتے ہی گرفتار کرلیا۔سماعت کے دوران را انوار کے وکیل نے سابق ایس ایس پی ملیر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی حفاضتی ضمانت دی گئی تھی تاہم اب اسے مسترد کیا جاتا ہے۔گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت یہ جان کر ہی رہے گی کہ را انوار کے سہولت کار کون لوگ ہیں اور انہیں عدالت کو جواب دہ بھی ہونا ہوگا۔عدالت کا گزشتہ سماعت کے دوران یہ بھی کہنا تھا کہ را انوار کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ عدالتِ عظمی آجائیں، اگر را انوار عدالت آتے ہیں تو وہ بچ سکتے ہیں، اور عدالت نہ آنے کی صورت میں انہیں کسی دوسری جگہ سے تحفظ نہیں ملے گا۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر معلوم ہوا ان کا کوئی سہولت کار ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024