وفاقی وزیر کی واٹر پالیسی کی نوید اور کالا باغ ڈیم
وفاقی وزیر آبی وسائل جاوید علی شاہ نے جلال پور پیروالا بار کے وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوبے گا نہ سندھ کے پانی میں کمی آئے گی بلکہ اس کی تعمیر سے ملک میں خوشحالی آئے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آنے والے وقتوں میں جنوبی پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ پچھلے 43 برسوں میں کوئی ڈیم نہیں بنا اور نہ ہی اب تک واٹر پالیسی دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کل 22 مارچ کو ملکی سطح پر واٹر ڈے منایا جائے گا اور مسلم لیگ ن کی حکومت اس دن کی مناسبت سے ملکی تاریخ میں پہلی بار واٹر پالیسی دے گی۔
تقسیم ہند سے پہلے ہی انجینئروں اور ماہرین نے دریائے سندھ پر، کالا باغ کے مقام کو، ایک زبردست ڈیم کی تعمیر کیلئے نہایت موزوں جگہ قرار دے دیا تھا، ماہرین کی رائے میںکالاباغ کے مقام پر ڈیم بننے سے لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو سیراب کرنے کیلئے ، بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت کے علاوہ ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کرکے پنجاب، سرحد اور سندھ کے وسیع وعریض علاقے کو روشن کرنے کے بھی زبردست امکانات ہیں۔ تقسیم کے بعد بھارت نے پاکستان کو ایسے سنگین مسائل میں الجھا دیا کہ اس پراجیکٹ کی طرف توجہ نہ دی جا سکی۔ حالانکہ اس بارے فائل ورک کے علاوہ فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کر لی گئی تھی، اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ محل وقوع کے باعث اس پر لاگت بھی کم آئیگی۔ عین اس وقت جب تعمیر کا آغاز ہونے والا تھا کہ بھارت نے گاندھی کے چیلے چانٹوں کو اسکی تعمیر روکنے کی ذمہ داری سونپی۔ قیام پاکستان کی مخالف اس لابی نے بھارتی مفادات کی تکمیل کیلئے ڈیم کی تعمیر کی مخالفت میں جو مفروضے تخلیق کئے انکی آبی ماہرین نے کبھی تائید نہیں کی۔ واپڈا کے درجنوں چیئرمین آئے اور ریٹائر ہو گئے لیکن کسی نے بھی، کالا باغ ڈیم کی ادنیٰ سی مضرت کی بھی نشاندہی نہیں کی۔ بلکہ واپڈا کے چیئرمین انجینئر شمس الملک نے، جن کا تعلق نوشہرہ سے ہے‘ کالا باغ ڈیم کی افادیت اجاگر کرنا کو زندگی کا مشن بنا لیا۔ ماہرین نے اس پر کتابیں لکھیں اور اعدادوشمار اور حقائق سے ثابت کیا کہ اس سے نہ نوشہرہ ڈوبے گا اور نہ سندھ کے پانی میں کمی آئیگی۔ لیکن مخالف عناصر کی میں نہ مانوں کی رٹ کو کوئی دلیل نہ بدل سکی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سلٹ کے باعث دو بڑے ڈیموں، تربیلا اور منگلا کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ نتیجتاً بجلی کی پیداوار بھی کم ہو رہی ہے، تقسیم کے وقت پانی کی فی کس مقدار پانچ ہزار کیوسک تھی جو کم ہو کر محض 946 کیوسک رہ گئی ہے اور اس میں بھی بتدریج کمی آتی جا رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے سے سالانہ لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں چلا جاتا ہے۔ بھارت عالمی سطح پر ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کیلئے پانی کے اس ضیاع کو دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہم کالا باغ ڈیم بنا کر ہی بھارت کے غبارے سے ہوا نکال سکتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ موجودہ حکومت جاتے جاتے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کردے اور یہ تاریخی کارنامہ انجام دینے کا کریڈٹ حاصل کر لے۔