فیض آباد دھرنا تو مدتوں پہلے ختم ہوگیا تھا لیکن اس کے اثرات آج تک جاری ہیں فوج نے پہلی بار دستاویزی ثالثی کرائی معاہدے پر آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید نے دستخط کئے جس پر نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے اعلیٰ عدلیہ سے ماتحت جج صاحبان تک درجہ بدرجہ گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔ اس معاہدے کے فریقین اب ثالثوں کو ڈھونڈ رہے ہیں شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ روز اک نیا تماشا لگا ہوا ہے جس پر منیر نیازی کا لافانی شعر یاد آ جاتا ہے۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اْترا تو میں نے دیکھا
علامہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کا پروانہ جاری ہوگیا۔ عدلیہ انتظامیہ اور عوام میں ’جنگ‘ کے شائقین کے گھر گویا عید ہوگئی۔ راکھ سے چنگاریوں کی تلاش کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ زخم کْرید کْرید کر اپنے وجود کو لہولہان کرنے سے کیا حاصل؟ منجھدار کے بیچ ایک نئے طوفان کی آمد ہمیں کس ساحل پر پٹخے گی؟ ایک ہی حرف زباں سے ادا ہوتا ہے کہ یااللہ خیر۔ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے فیض آباد دھرنے میں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کو بدستور عدالتی مفرور قرار دیا۔ پولیس کو حکم ہوا کہ ’ملزمان‘ گرفتار کر کے عدالت میں حاضر کئے جائیں۔ 4 اپریل تک کی مہلت ہے۔ فیض آباد دھرنے پر علامہ خادم حسین رضوی کے علاوہ پیر افضل قادری، مولانا عنایت حسین اور دیگر کیخلاف مقدمات درج ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں ازخود نوٹس کی کارروائی جاری ہے۔ دھرنے، عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں کی تضحیک کے مقدمہ کی سماعت کے دوران سوالات کی ایک پٹاری کھولی گئی۔ پوری دنیا جس کی دشمن ہے، اس آئی ایس آئی کی رپورٹ کو نامکمل اور غیر تسلی بخش قرار دے کر نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایاگیا۔ یہ سماعت اب د و ہفتوں بعد ہونا مقرر ہوئی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس نے میڈیا پر خوب رنگ جمایا۔ فرمایا ’ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کی یہ کارکردگی ہے تو میں اس ملک کیلئے فکرمند ہوں۔ علامہ خادم رضوی کون ہے؟ اسکے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ اس کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ خطیب ہے؟ کوئی دوسرا کام کرتا ہے؟ کیا اس کا کوئی بینک اکائونٹ بھی ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوالات غوروفکر کو دعوت دینے والے ہیں۔ وہ جس منصب جلیلہ پر متمکن ہیں، اس کا تقاضا بڑا ہی نازک ہے۔ ’بابا رحمتے‘ کی ذمہ داری کٹھن اور بھاری ہے۔ شہریوں کی اربو ں روپے کی املاک تباہ ہونے کا بھی انہیں خیال ہے۔ انہوں نے اپنے خوف کا بھی اظہار کیا جو انہیں قومی ادارے کے ضمن میں آیا ہے۔
وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ علامہ خادم رضوی کرپٹ ہے۔ آئی بی کی دستاویزات دیکھنے کے بعد عدالتی ریمارکس تھے کہ یہ دستاویزات کیا ہیں؟ یہ تو اخباری خبروں کے تراشے ہیں جنہیں خفیہ دستاویزات کی طرح دکھایا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل آفس سے سوشل میڈ یا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے اقدامات کی رپورٹ بھی عدالت نے طلب کی ہے۔ آئی ایس آئی کی 46 صفحات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحریک لبیک نہ ہی کالعدم جماعت ہے اور نہ ہی واچ لسٹ پر ہے۔علامہ خادم رضوی بظاہر کرپٹ آدمی ہیں۔ انکی شخصی شہرت غیرتسلی بخش ہے۔ ان کا رہن سہن بظاہر ان کی آمدن سے مطابقت رکھتا ہے۔
رپورٹ میں تحریک لبیک کے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کو مطلبی اور موقع پرست قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ مذہبی انتہا پسند کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علامہ خادم رضوی نے مارچ، دھرنا سے قبل ایک کروڑ روپے سے زائد رقم اکٹھی کی تھی۔ لوگوں سے کہا تھا کہ یا تو مارچ میں شریک ہوں یا پھر 300 روپے فی کس جمع کرائیں۔ دیگر منسلکہ مدارس نے بھی مارچ کیلئے امداد جمع کی۔ شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی علماء ونگ نے بھی مظاہرین کی مدد کی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک کے مظاہرین کو کھانا فراہم کرنے کا بھی انکشاف کیا گیا۔ مددگاروں میں پیپلزپارٹی کے شیخ حمید اور ایک نجی ٹی وی کے تجزیہ کار بھی شامل پائے گئے۔ 6 وکلائ، 3 ٹریڈ یونین رہنما بھی اس فہرست میں موجود ہیں۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
آئی ایس آئی کے نمائندوں نے حکومت اور مظاہرین میں رابطے کا کردارادا کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے آزادانہ طور پر دھرنا منتظمین سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ رپورٹ میں دیگر ایجنسیوں کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیاگیا۔ دھرنے کے شرکاء نے سی ڈی اے کے بجلی کھمبوں سے بجلی چوری کی۔ سی ڈی اے کا ایک اسٹینڈ بائی جنریٹر بھی استعمال ہوا۔
دوسری جانب تحریک لبیک کے مرکزی ناظم اعلیٰ وحید نورنے کہا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کے وارنٹ سے فیض آباد معاہدہ سبوتاژ ہوگا۔گارنٹی دینے والوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں حکومت پر پہلے اعتماد تھا نہ، اب ہے۔ حکومت ایک منصوبہ بندی کے تحت حالات خراب کر رہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کو ختم کرانے کیلئے افواج پاکستان نے بطور ثالث کردار کیا تھا۔ معاہدے میں یہ موجود تھا کہ کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائیگی۔ تمام کیسز واپس ہونے تھے۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس پر احتجاج کرینگے۔
تحریک لبیک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام اور اسکے سامنے پیش ہونے کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے شرط یہ رکھی ہے کہ حکومتی اور دیگر تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی کمشن کو اپنے عطیات کا حساب دیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں تحریک کے سربراہ امیرالمجاہدین علامہ خادم حسین رضوی کی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کسی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ وہ کروڑوں غیور غلامان رسول اور محبان پاکستان کے دلوں کی دھڑکن اور قادیانیوں کی بین الاقوامی تنظیم کے اہداف اور مقاصد کی راہ میں سب سے بڑاکانٹا ہیں۔ یہ کام ان لوگوں کو اچھا نہیں لگ رہا جو پاکستان کے پاکیزہ ماحول کو ننگ دھڑنگ مادر پدر آزادی کے سپرد کرکے پاکستان کے نظریے اور جغرافیے دونوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔ بھانت بھانت کے تجزیہ کار جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ ’غیرت‘ دلارہے ہیں، طعنے اور کوسنے دے رہے ہیں، پھبتیاں کسی جارہی ہیں کہ کسی میں علامہ خادم رضوی کو پکڑنے کا ’دل گردہ‘ نہیں۔ ایسے ہی لوگ تھے جنہوں نے پہلے لال مسجد سانحہ کی ابلاغی محاذ پر راہ ہموار کرائی اور پھر حادثے کے اگلے روز سب سے پہلے ’پھوہڑی‘ ڈال کر بین کرنے لگے۔ سانحہ سے پہلے اور بعد کے اخبارات اور چینلز کی نشریات دیکھ لی جائیں تو سب کچھ واضح ہوجائیگا۔ ایک بزعم خود ’سینئر تجزیہ کار‘ نے زہرافشانی کی کہ ’دھرنا ختم کرانے کیلئے حکومت نے سر نگوں کیا۔ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرائے۔ عدلیہ کو رگیدنے میں موصوف قلم کی سیاہی اپنے محبوب شربت کی طرح بہانے میں ان دنوں دن رات مصروف ہیں۔
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو بھی زبان لگ گئی۔ کہتے ہیں ’عدالتوں کے احکامات میں حکومت رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ دھرنا مظاہرین سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت شق نمبر تین یہ تھی کہ تمام مقدمات ختم کئے جائیں گے اور حکومت مقدمات کو واپس لینے کی ذمہ دار ہے، عدالتی حکم اور حکومتی معاہدے کا تقابل نہیں کرایا جا سکتا۔ معاہد ہ ہوا تو اسکی پاسداری بھی کرنی ہوگی۔ عدالت نے کہا ہے کہ ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے لہٰذا انہیں گرفتار کر کے پیش کیا جائے، یہ ضروری نہیں کہ گرفتار ہی کیا جائے یہاں مثال موجود ہے کہ ایک شخص دو سال تک اشتہاری رہا اور ایک صبح وہ پیش ہوئے توانہیں ضمانت بھی مل گئی، اسی طرح علامہ خادم حسین اور دوسرے رہنما بھی ضمانت قبل از گرفتاری کرا سکتے ہیں اور معاہدے کا بتا سکتے ہیں پھر اس کا جواب معاہدہ کرنے والوں کو دینا ہوگا۔یہ سب کچھ بیان کرنے سے آپ جان گئے ہوں گے کہ مجموعی منظرکیا بن رہا ہے۔ ہم سب ایک فتنے سے نجات پاتے نہیں کہ اس سے بڑا فساد ہمارے در پیٹ رہا ہوتا ہے۔ خدا خدا کرکے فضا میں کچھ سکون آیا تھا۔ اب ایک بار پھر لوگ دل تھامے، دانت بھینچے سیاہ بادل جمع ہوتے دیکھ کر دعائیں مانگنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملے کو ’فسادی ٹولہ‘ پوری سیاسی سفاکی سے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ عدالت اور مذہبی طبقات کے ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہونے سے سراسر فائدہ ’مجھے کیوں نکالا‘ کو ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024