نوازشریف کو کڑے وقت سے جانتا ہوں‘ انہیں مقدمات سے شکست نہیں دی جا سکتی: سلیم ضیاء
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) سینٹ مسلم لیگ (ن) کے چیف وہپ اور سابق وزیر قانون سینیٹر سلیم ضیاء نے کراچی کی جیل میں قید کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کو موبائل فون پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہاس موبائل کے ذریعے سابق وزیر اعظم بیرون ملک خصوصا عربی اور اندرون ملک دوستوں سے رابطے میں رہے۔ انہوں نے ے یہ بات نوائے وقت کو ایک انٹرویو بتائی انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو مقدمات کے ذریعے سیاسی طور پر شکست دینا ناممکن ہے ، جو یہ سمجھتے ہیں وہ انہیں نہیں جانتے۔ میں انہیں کڑے وقت سے بھی جانتا ہوں، کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے مریم نواز نے حال ہی میں میدان سیاست میں قدم رکھا ہے یہ تاثر سراسر غلط ہے مریم نواز میاں محمد نواز شریف پرویزی مارشل لا ء کے دوران ہر شعبہ حیات جس میں سیاست ،فلاح وبہبود کے کام ہوں حتی ٰ کہ سیاسی جلسوں یا محافل مدلل گفتگو میں لوگوں سے پذیرائی حاصل کی ہے کچھ لوگوں میں بدگمانی پائی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں دراڑ پائی جاتی ہے لیکن یہ سراسر بے بنیاد بات ہے یہ سیاسی شعبدہ بازوں کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بعید از قیاس ہے انہوں نے کہا سیاست کا کچرا تحریک انصاف میں اکھٹا ہو گیا رہی سہری کسر انہوں نے اپنی جبین نیاز کو آصف علی زردرای کی دہلیز پر جھکا کر پوری کر دی ہے۔ میاں صاحب نے کراچی جیل میں ملاقات کے دوران مجھے موبائل فون پہنچانے کا کہا جو بظاہر اتنی سکیورٹی کے دوران جیل میں پہنچانا ناممکن لگتا تھا۔جیل میں ہماری ملاقات جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ہوتی تھی اس وقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت علی منگن بہت ہی شفیق انسان تھے انہوں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ میاں صاحب سے ملاقات کیلئے کوئی بھی ملنے آئے تو اسے ملاقات کرنے دی جائے ،اس روز میں میاں صاحب کو ملاقات کے دوران اپنا کمرہ ہمارے حوالے کر کے باہر نکل جاتے تھے ،میں نے دبئی سے ایک دوست سے انتہائی چھوٹا سیٹ اپنی پینٹ کے بیلٹ کے اندر چھپا کر جیل میں ملاقات کے دوران میاں صاحب کے پاس لے گیا اور واش روم میں سیٹ کے پیچھے رکھ کر میاں صاحب کو بتادیا کہ وہاں سے لے لیں، انہوں نے موبائل وہاں سے حاصل کرنے کے بعد اپنے پاکستان میں دوستوں اور سعودی عرب ،دبئی میں اپنے عالمی دوستوں سے رابطہ شروع کیا اور مجھے جب انتہائی ضروری بات کرنی ہوتی تھی تو کال کرلیتے تھے اور یہ طے تھا کہ میں انہیں کال نہیں کروں گا۔ایک دن اتوار کی صبح سویرے میاں صاحب کی کال آئی کہ انہیں اٹک قلعہ منتقل کیا جارہا ہے اس لئے موبائل تم لے جاؤ ورنہ جامہ تلاشی کے دوران پکڑا جائیگا۔ میں نے کہا کہ آج چھٹی ہے اس لیے آپ جیل سپرنٹنڈنٹ سے کہیں کہ مجھے سلیم ضیاء کو کراچی میں جاری کیسز کے حوالے سے کچھ ہدایات دینی ہیں، اس لیے میں اٹک اس وقت تک نہیں جاؤں گا ،جب تک مجھے میرے وکیل سلیم ضیاء سے ملاقات کرا نہیں دی جاتی۔میاں صاحب کے اصرار پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے مجھے ملاقات کی اجازت دی تو میں نے جیسے موبائل پہنچایا تھا ویسے ہی اس کو لے کرواپس کرنے میں کامیاب ہو گیا۔میاں صاحب کو جب وہاں سے اٹک کیلئے بھجواجارہاتھاتو جیل کا پورا عملہ وہاں اکٹھے ہو کر رو رہا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت منگن نے مجھے کہا کہ تمہارا لیڈر بہت عظیم انسان ہے اس نے یہاں پر ساڑھے تین سو افرادکیلئے مسجد تعمیر کروائی ہے۔کراچی قیام کے دوران اعجاز شفیع اور اٹک قلعے میں قید کے دوران آفتاب شیخ کے گھر سے کھانا جاتا تھا۔میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف ،اعجاز شفیع، غوث علی شاہ، سعیدمہدی، مشاہد اللہ ،شاہد خاقان عباسی اور رانا مقبول نے اس دوران بہت مضبوطی سے قید گزاری اور حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔بیگم کلثوم نواز ،مریم نواز اور ان دونوں بھائیوں(نواز شریف، شہباز شریف) کے حوصلے نے مجھے حیران کیا۔ دوسری صورتحال اتنی خراب کہ سندھ اسمبلی کے21 ن لیگی ممبران میں سے صرف میں ایک اکیلا ن لیگ میں رہ گیا تھا باقی سب چھوڑ گئے جبکہ قومی اسمبلی کے 10 رکن ن لیگ کے تھے جن میں صرف غوث علی شاہ اور اعجاز شفیع رہ گئے تھے حتی کہ ہمارے وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی بھی ق لیگ جوائن کر گئے۔لیاقت علی جتوئی کے کچھ،، مسائل،، تھے۔ جس کی وجہ سے اسے ق لیگ کو جائن کرنا پڑا۔ دوستوں کی بے وفائی بھی نواز شریف کے عزم کو کمزور نہیں کر سکی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کمزور اعصاب کا مالک ہے انہیں نواز شریف کی ہمت اور جرات کا اندازہ ہی نہیں نواز شریف کو تین جرنیلوں ،جنرل عزیز، جنرل محمود وغیرہ نے اسمبلی توڑنے اور استعفیٰ دینے کیلئے بہت دباؤ ڈالا لیکن انہوں نے اس ذلت کی بجائے جواں مردی سے ڈٹ جانے کو ترجیح دی۔ اب بھی نواز شریف حالات کا بھرپور مقابلہ کریں گے اور اگلے الیکشن میں ن لیگ ،پی ٹی آئی اور پی پی کا مکمل صفایا کر دے گی شہباز شریف بہترین لیڈر ثابت ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے کبھی بھی اٹک قلعے میں بچھو چھوڑنے، سر کے اوپر بلب لگانے سمیت کوئی شکایت بھی زبان پر نہیں لائی ۔میاں نواز شریف کے کہنے پر مشاہد حسین سید کو رہائی پر ملاقات کیلئے مشاہد اللہ اور میں گئے تو ہمیں اٹھا لیا گیا بعد ازاں کافی دن بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کسی کے ان کے پیچھے نہ آنے کی شکایت کی۔