قرار عہد سے تجدید عہد تک
۲۳ مارچ ہماری ملّی تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنی منزل متعین کر کے صحیح رُخ پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ تاریخ ہمارے عزم و عمل، ہمت و استقلال ایثار و قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس دن کی یاد کے ساتھ ہی برصغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد کی پوری تاریخ نظروں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ وہ زمانہ بھی یاد آتا ہے جب حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے شہنشاہ اکبر کی بنائی ہوئی متحدہ قومیت اور نام نہاد دین الٰہی کے مقابلے میں جہاد کیا تھا۔ انگریزوں کی ہندوستان میں عملداری مسلمانوں کے ساتھ ان کی دراز دستیوں اور زیادتیوں کے نتیجہ میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ، پھر ہندوؤں کا انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا استحصال اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس کہ جب تک وہ ہندوؤں سے الگ ہو کر اپنی راہ نہیں بنائیں گے اس وقت تک ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہو سکے گا۔ یہ تمام نقوش رفتہ ایک ایک کر کے یادداشت کے پردہ پر ابھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔
یوں تو مسلمانوں میں علیحدہ وطن کا خیال پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد پیدا ہو گیا تھا لیکن سب سے پہلے اس کی طرف اشارہ سرسید نے۱۸۶۷ء میں اس وقت کر دیا تھا جب یوپی کے انگریز گورنرکی شہ پر ہندوؤں نے اردو کی جگہ ہندی کی حمایت کی تحریک شروع کی۔ انہوں نے بعد میں صاف صاف کہہ دیا تھا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے کبھی نہیں رہ سکتے۔
غرض دو قومی نظریئے کا منطقی نتیجہ تھا دو وطن، چنانچہ ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال نے اپنے خطبہ ٔ الٰہ آباد میں فرمایاـ: ’’میری خواہش ہے کہ صوبہ پنجاب ، سرحد، سندھ، بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست بنا دیا جائے۔ میرے نزدیک شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی قسمت ایک متحدہ مسلم ریاست کی تشکیل سے وابستہ ہے۔‘‘
علامہ اقبال کی اس بصیرت افروز رائے نے مسلمانوں میں پذیرائی حاصل کی ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پورے جذب وانہماک سے اس پر غور کیا اور مسلما ن بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقاء اور تحفظ اس صورت میں ممکن ہے انہیں علیحدہ وطن کی تشکیل کا موقع ملے۔ چنانچہ علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کے پورے دس سال بعد یعنی مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے اقبال پارک میں جسے پہلے منٹو پارک کہتے تھے۔ اسلامیان ہند کے نمائندگان نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی۔ جسے قرارداد پاکستان کا نام دیا جاتا رہا۔ اس موقع پر قائداعظم نے کہا تھا کہ: ’’ہم مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و امان کی زندگی بسر کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنی روحانی، تمدنی، اقتصادی ، معاشرتی او رسیاسی زندگی کو کامل نشوونما بخشے اور اس کے لیے وہ طرز عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو۔ جو ہماری قوم کے مزاج اور اس کے افراد کی امنگوں کے مطابق ہو۔‘‘
اس تاریخ ساز فیصلے کو روبہ عمل لانے میں سات سال لگے۔اس عرصے میں مسلمانوں کو ہندو کانگریس اور برطانوی سامراج کی مخالفت کے علاوہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کانگریس کے آلئہ کار بنے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے قرارداد جس خلوص نیت او رجوش و جذبہ کے تحت منظو رکی تھی۔ اس پر اتنے ہی خلوص او رجوش وجذبہ کے ساتھ کام کیا۔ یہ اسی خلوص او رجوش و جذبہ کا نتیجہ تھا کہ صرف سات سال کے قلیل عرصہ کے بعد مسلمانانِ ہند کی کوشش سے دنیا کے نقشہ پر ایک نئی اسلامی مملکت کا ظہور عمل میں آگیا۔
بلاشبہ اگر قائد اعظم کا تدبر و خلوص اور عام مسلمانوں کا جذبہ عمل شامل حال نہ ہوتا تو پاکستان کا قیام جسے مخالفین ایک شاعرانہ تخیل اور دیوانے کے خواب سے تعبیر کرتے تھے۔کبھی حقیقت کا روٖ پ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔
بہرحال ۲۳ مارچ اس عصر آفریں جدوجہد اور عظیم الشان کامیابی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ جو نظریہ اور جو سیاسی و اقتصادی عوامل پاکستان کے قیام کا موجب ہوئے تھے۔ ان کی تکمیل میں ہم کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔
تاریخی تناظر میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو اقرار عہد کی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمانان بر صغیر نے اس دن یہ عہدکیاتھاکہ وہ حصولِ مملکت خدا داد کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ جبکہ ۲۳ مارچ ۲۰۱۸ کو وطن عزیز کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں’’تجدید عہد‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ایک خواب کی تشکیل سے تکمیل تک ایک طویل اور کٹھن سفر مسلمانان پاکستان کے حوصلے پست نہ کر سکا اور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ استحکام پاکستان کے لئے سر گرم ہوگئے۔ آج بھی اسی جذبے کو از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم مسلک ، عقیدہ، رنگ و نسل ، علاقے اور زبان کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر وطن عزیز کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ ایک محب وطن شہری کے طورپر ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح سانس لے سکیں۔جو ہماری ملکی روایات اور تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں سماجی و معاشی انصاف کے اسلامی تقاضے شرمندہ تکمیل ہو سکیں ۔
دراصل یوم پاکستان ایک مسرت وشادمانی کا ہی دن نہیں بلکہ یوم حساب بھی ہے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کی تعمیر وترقی میں ہم نے کہاں تک اپنے فرائض ادا کیے ہیں اور کن کوتاہیوں میں ہمارا حصہ ہے دیکھا جائے تو یہ ایک تجدید عہد کا بھی دن ہے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں گے اور آئندہ ہم سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوگی -
آئیے اپنے شخصی اختلافات کو بھول کر بطور قوم آگے بڑھنے کے لیے اپنے فرائض پہچانیں اور دوسروںکے حقوق کا احترام کریں کوئی وجہ نہیں کہ دوسرا بھی ہمارے حقوق کا احترام اپنے فرائض کی بطریق احسن ادائیگی میں ڈھونڈے گا۔
آج وقت کی پکار بھی یہی ہے کہ ہم حُسنِ نیت سے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنی ترجیحات کا تعین ازسرنو کریں اور ’’آج کے پاکستان‘‘ کو ’’قائداعظم کے پاکستان‘‘ میں بدلنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں۔ وقت کم ہے اور ہم نے ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہم عہد کریں کہ اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے اور ’’ایمان، اتحاد اور نظم‘‘ کے سبق کو ذاتی اور قومی پالیسی کے طور پر فروغ دیں گے۔
کاش ۲۳۔مارچ کی یاد ہمیں ایک بار پھر جھنجوڑ سکے اور ہم اپنے ماضی کی شاندار روایات کی روشنی میں پھر عزم وعمل کی تصویر بن سکیں۔