اقوام متحدہ کی وارننگ کے باوجود تھر میں قحط سے نمٹنے کے اقدامات کیوں نہیں ہوئے : چیف جسٹس
کراچی (وقائع نگار) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی وارننگ کے باوجود تھر میں قحط سے نمٹنے کے اقدامات کیوں نہ ہوئے؟ عدالت کو بتایا جائے کہ تھر میں قحط سے نمٹنے کیلئے حکومت سندھ نے کیا اقدامات کئے۔ چیف سیکرٹری سندھ اور سیکرٹری صحت نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ سیکرٹری اقبال درانی نے عدالت کو بتایا کہ تھر کے قحط زدہ علاقوں میں 24 ڈاکٹروں کو تعینات کیا گیا تھا، جن میں صرف 8 ڈاکٹروں نے فرائض انجام دیئے باقی ڈاکٹروں کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ تھرپارکر میں قحط سالی کے اسباب اور ان اسباب سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی اقدامات کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ کو ہدایت کی وہ مصلحتوں کا شکار نہ ہوں اور قومی فریضہ سمجھتے ہوئے تھرپارکر کے قحط زدہ علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دئیے کہ حکومت کی جانب سے بلاجواز رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ تھر کے علاقے میں اقوام متحدہ اور دیگر این جی اوز کی جانب سے پہلے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے آنے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال ان علاقوں میں ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو حکومت مستقل طور پر اقدامات کیوں نہیں کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تھرپارکر میں قحط کے حالات کیوں پیدا ہوئے؟ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ سب اللہ کی مرضی سے ہوا اور اس علاقے میں بارش نہیں ہوئی۔ انہوں نے چیف سیکرٹری سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس نظام میں آپ موجود ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے لیکن آپ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیکرٹری صحت اقبال درانی نے بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ہونے والے ڈاکٹر کراچی اور حیدر آباد سے آگے نہیں جانا چاہتے۔ عدالت نے کہا کہ سندھ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے لیے آخری 6 ماہ میں کمیونٹی سروسز کے تحت تھر میں ڈیوٹی لازمی قرار دی جائے۔ ہرڈاکٹر کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ اس کا ڈومیسائل جس ضلع کا ہے کہ وہ وہاں کم سے کم تین سال ڈیوٹی دے۔