لاپتہ افراد کے کیس میں آئین و قانون کی عملداری کیلئے سپریم کورٹ کی حکمرانوں کو سخت لہجے میں وارننگ…کسی کے آئین و قانون سے بالاتر ہونے کا تصور سسٹم کی ناکامی سے ہی تعبیر ہوگا
سپریم کورٹ نے باور کرایا ہے کہ حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے۔ اب ملک میں آئین اور قانون چلے گا اور آئین سے بالاتر کوئی نہیں ہو گا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تابع نہیں تو ایسا ہے نہ ایسا ہونے دیا جائیگا۔ مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے بینچ نے گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا کہ ہم آئینی ذمہ داری سے غافل نہیں رہ سکتے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم وزیراعظم اور وزیراعلیٰ و گورنر خیبر پی کے سے پوچھیں گے کہ عدالتی احکام پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا۔ اگر کوئی قانون سے بالاتر ہے تو ہمیں بتا دیں۔ دوران سماعت مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے لیکن عدالت آئین سے متصادم قانون بنانے کی اجازت نہیں دیگی‘ جو بھی قانون بنایا گیا‘ عدالت اس کا جائزہ لے گی۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ آئین کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے اور صوبے میں آئین پر عملدرآمد کی ذمہ داری گورنر پر عائد ہوتی ہے۔ ہماری بھی آئینی ذمہ داریاں ہیں جن کا ہم نے حلف اٹھا رکھا ہے۔ عدالت کو کاغذی کارروائی میں دلچسپی نہیں‘ ہمیں لاپتہ افراد کے کیس میں پیشرفت چاہیے۔ فاضل عدالت نے باور کرایا کہ آج اس کیس کی 35ویں سماعت ہے مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ بنیادی حقوق کی کسی کو قدر نہیں۔ وزیراعظم بے شک یہ بیان دیں کہ وہ اس معاملے سے بری الذمہ ہیں مگر قانون سب کیلئے برابر ہے۔ ہمیں کسی کی وضاحت نہیں سننی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے فاضل عدالت کو یقین دلایا کہ جبری گمشدگی میں ملوث فوجی افسروں کیخلاف وفاق کی مدعیت میں آج ہی ایف آئی آر درج کرادی جائیگی۔ فاضل عدالت نے اس یقین دہانی پر کسی حکومتی شخصیت کو نوٹس جاری کرنے سے گریز کیا اور ایف آئی آر کی کاپی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
لاپتہ افراد کا کیس پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت سے عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے مگر لاپتہ افراد کا معاملہ جوں کا توں برقرار ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے حوالے سے اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنایا اور سپریم کورٹ کی صدر نشست اسلام آباد کے علاوہ سپریم کورٹ کی کوئٹہ‘ کراچی اور لاہور رجسٹری میں بھی اس کیس کی سماعت کے دوران حکومتی انتظامی مشینری کو آئین و قانون کی عملداری کیلئے جھنجوڑتے رہے جبکہ پیپلزپارٹی ہی نہیں‘ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بھی اس کیس میں عدالت عظمیٰ کے روبرو خفت کا سامنا کرتی رہی۔ حکمرانوں نے اپنے طور پر یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کے حوالے سے انکی پریشانی ختم ہو جائیگی مگر سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ کیس آج بھی حکمرانوں کے گلے کی پھانس بنا ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ اگر اس کیس کے حوالے سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بول بالا کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو یہ درحقیقت حکومتی گورننس کی بہتری اور سسٹم کے استحکام ہی کی جانب پیشرفت ہے جس پر حکمرانوں کو زچ ہونے کے بجائے عدالتی احکام کی روشنی میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا چاہیے اور اگر انہیں کسی سکیورٹی ایجنسی یا افراد کی جانب سے غائب کرکے دانستہ طور پر انصاف کی دسترس سے دور لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ صورتحال بذاتِ خود حکومت سے اپنی اتھارٹی منوانے کی متقاضی ہے تاکہ کسی حکومتی ریاستی ادارے کو اپنے قانونی‘ آئینی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئین و قانون سے بالاتر ہونے کا تاثر دینے اور ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو اپنے ساتھ منسوب کرنے کی جرأت نہ ہو۔
اس تناظر میں ہر تاریخ سماعت پر عدالت عظمیٰ حکمرانوں کو یہی باور کراتی رہی ہے کہ ملک کا کوئی ادارہ یا شخص آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ اگر کسی نے خلاف قانون کوئی حرکت کی ہے اور اسکی کسی حرکت سے ملکی اور قومی مفادات پر زد پڑی ہے تو اسے مروجہ طریقہ کار کے مطابق قانون کے شکنجے میں لا کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس کا جرم ثابت ہو گا تو انصاف کی عملداری میں وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے گا اور اگر کسی کو جرم بے گناہی میں پکڑ کر غائب کیا گیا ہے‘ یا تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ہے تو اس جرم کے مرتکبین کو بھی قانون کے تقاضوں کے تحت اپنے کئے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ اس کیس میں عدالتی احکام کی روشنی میں اصلاح احوال کے بجائے سکیورٹی اداروں کے متعلقہ حکام کی جانب سے اپنے قانون سے بالاتر ہونے کا ہی تاثر دیا جاتا رہا‘ جن حکام کو عدالت طلب کرتی‘ وہ حیلے بہانے سے عدالت میں پیش ہونے سے گریز کرتے رہے اور سابق اٹارنی جنرل کے ذریعے عدالت کو یہ تک باور کرادیا گیا کہ جن لوگوں نے سکیورٹی اہلکاروں کے گلے کاٹے ہوئے ہیں‘ انہیں کیسے عدالت کے حوالے کر دیا جائے۔ یہی سوچ درحقیقت ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو اجاگر کرتی ہے جس سے انصاف کی عملداری پر بھی زد پڑتی ہے اور اس سے حکومتی انتظامی مشینری کی بے بسی بھی اجاگر ہوتی ہے۔ حکومت کو تو اس تاثر کے خاتمہ کیلئے عدالت عظمیٰ کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی عملداری کیلئے اس کا معاون بننا چاہیے تھا مگر اب تک حکومت کی جانب سے عدالتی احکام پر عملدرآمد کرانے کیلئے کوئی عملی پیشرفت نہیں کی جا سکی اور تاخیری حربے اختیار کرتے ہوئے عدالت سے ہر تاریخ سماعت پر مہلت حاصل کرنے کی پالیسی پر ہی عمل کیا جا رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے اس کیس میں سخت لب و لہجہ اختیار کرنے پر متعلقہ سکیورٹی ایجنسی بعض لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہوئی جبکہ بعض لاپتہ افراد کے ہلاک ہونے کا بھی اعتراف کرلیا گیا مگر چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد پھر سرکش گھوڑے والی روش اختیار کرلی گئی۔ چنانچہ اب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بھی عدالت عظمیٰ کو آئین و قانون کی حکمرانی کی خاطر وہی اقدام اٹھانا پڑ رہا ہے جو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں حکومت اور سکیورٹی اداروں کیلئے پریشانی کا باعث بنتا رہا ہے۔
اگر حکومت نے عدالتی احکام کی روشنی میں نیک نیتی کے تحت کسی سکیورٹی ادارے کے ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو ختم کرنے کیلئے تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کرکے لوگوں کو حراست میں لینے سے متعلق سکیورٹی اداروں کے اختیارات محدود کئے تھے اور انہیں آئین و قانون کے تابع کیا تھا تو پھر لاپتہ افراد کے کیس میں آج بھی انکی سرکشی کا تاثر اور افراد کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ ہی کیوں برقرار ہے۔ یہ صورتحال یقیناً حکومت کے اپنے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ اس سے اسکی اپنی حکمرانی پر زد پڑ سکتی ہے اس لئے حکومت کو اب اس کیس میں عدالتی احکام کی تعمیل میں نہ خود پس و پیش سے کام لینا چاہیے نہ کسی حکومتی‘ ریاستی ادارے کو عدالتی احکام کی تعمیل سے گریز کرنے دینا چاہیے۔ یہ کیس بلاشبہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے ٹیسٹ کیس ہے جس میں حکومتی ناکامی درحقیقت سسٹم کی ناکامی سے تعبیر ہوگی۔