1973ء کا آئین متفقہ تھا اور عالمی تناظر میں بہت اچھا تھا لیکن اس میں بھی پارلیمنٹ کو مجبور کیا گیا۔ ججز کی تعیناتی میں ترمیم کر کے کلی اختیارات چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو دے دئیے جائیں جو ججز کی تعیناتی کی سکروٹنی، گورنر خفیہ ایجنسیوں سے کراتا تھا وہ ختم کر کے جوڈیشل کمیٹی اور پارلیمنٹری کمیٹی کو دے دی گئی گورنر کو بالکل سلیکشن میں فارغ کر دیا گیا اور سارے اختیارات چیف جسٹس کو مل گئے اگر پارلیمنٹ کمیٹی کوئی سلیکشن بھی کرے تو لسٹ لیکر اسے کالعدم قرار دیا گیا‘ جو مثالیں موجود ہیں جن میں ججز کی تعیناتی کا طریقہ جو 1973ء کے آئین میں موجود تھا وہ بہتر تھا، اُس میں چیف جسٹس صوبوں کی ہائی کورٹ، وزیر اعلیٰ، گورنر، چیف جسٹس پاکستان اور صدر پاکستان سے رائے لی جاتی تھی جو بہتر طریقہ تھا۔ موجودہ ترمیم کو جوڈیشل ڈنڈے سے کروائی گیئں بہتر نہیں ہیں۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے کچھ اچھے اثرات بھی ہوئے کہ لوگوں سے ہڑپ کی ہوئی رقوم نکلوائی گئیں اور ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کی گئی جو قابل تحسین ہے لیکن وزرائے اعظم کی تضحیک کی گئی جو کسی نقطہ نظر سے جائز نہیں۔ ملکی خفیہ ایجنسیوں کو ملکی دفاع کیلئے کام کرنے کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ امریکہ کو ہی دیکھ لیں وہاں جیلیں ہیں جن میں امریکی حکومت کے مطابق ملکی مفاد کے مجرموں کو جیلوں میں رکھا گیا لیکن کسی امریکی عدالت نے مخالفت نہیں کی۔ عافیہ صدیقی نے کونسی امریکہ کے خلاف بندوق اٹھائی تھی کہ اسے پابند سلاسل کیا گیا، گوانتا نامو بے جیل میں القاعدہ کے لوگوں کو رکھا گیا کسی امریکی عدالت نے مخالفت نہیں کی۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے اور غیر ملکی ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں انکے سدباب کیلئے تو خفیہ ایجنیسوں کو اجازت ہونی چاہئے اور اسکی مخالفت تو پاکستانی مفاد میں نہیں۔ حال ہی میں افتخار چودھری نے ایک رٹ پٹیشن میں 88 افسران کی 21 گریڈ میں ترقی کو روک دیا۔ جب ایک افسر کی رپورٹ اے سی آر مکمل نہیں اس کو ترقی سے Difer کرنا ضابطہ کیخلاف نہیں اور اسکی رٹ پر اسے ترقی دینا تو کورٹس کا حق ہے لیکن دوسروں کی ترقی روکنا تو کسی انصاف کے مطابق نہیں۔ اس طرح ان افسران کا دوبارہ سلیکشن بورڈ کی سفارشات کیمطابق نوٹیفکیشن کو روک دینا تو کوئی انصاف نہیں جس کی حق تلفی کی گئی ہو تو اس افسر کو ریلیف دینا تو جائز ہے لیکن دوسروں کی ترقی روک دینا تو قرین انصاف نہیں۔ اس وقت ہر صوبہ آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ سنٹرل سروس کے ہی لوگ ہیں جو پاکستان کی سالمیت برقرار رکھ سکتے ہیں، صرف سنٹرل سروس ہی ایک سلیکشن ہے جو مقابلہ کے امتحان، قائداعظم کے فرمان کے مطابق بھرتی ہو رہی ہے اسکے افسروں کو بددل کرنا کسی طریقہ سے جائز نہیں۔ چیف جسٹس تصدق جیلانی سے التماس ہے کہ جوڈیشل ریکروٹمنٹ کو قائداعظم کے فرمان اور آئین کیمطابق چلائیں، لوگوں کی ترقیوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور پبلک سروس کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو اپنا کام کرنے دیں۔ جوڈیشری اپنی حد تک رہے اور لیجسلیٹو اور ایگزیکٹو کو بے بس نہ کرے۔ ملکی ستون تین ہوتے ہیں جوڈیشری، ایگزیکٹو اور لیجسلیٹو، اگر تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ رہیں تو نظام حکومت ٹھیک چلتا ہے اگر کوئی دوسرے کے اختیار استعمال کرے اور اوور سٹیپ کرے تو جمہوریت کا ستون مسمار ہو جاتا ہے۔ میں یہ فیصلہ عوام اور جوڈیشری کے ناخدائوں پر ہی چھوڑتا ہوں کہ ایک ہماری عدالتیں چرچل کے فرمان کیمطابق ’’صحیح کام کر رہی ہیں‘‘ اگر جواب نفی میں ہے تو ملک میں خطرہ کی گھنٹی بج رہی ہے سب کو ہوشیار ہو کر عدالتوں کو صحیح کام کرنے دیں اور غیر آئینی کاموں سے جہاں عدالتوں کا فرض ہے کہ دوسرے ستونوں کو روکیں اس طرح دوسرے ستونوں اور سول سوسائٹی کا بھی فرض ہے کہ ہر ستون کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رکھے ؎
سمجھ جائے اگر تو بِن کہے میں چپ رہوں لیکن
مجھے ڈر ہے مری مشکل تری مشکل نہ بن جائے (ختم شد)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024