ایک دن ایک استاد اپنی کلاس میں اپنے طلباء کو سبق پڑھا رہے تھے۔ استاد صاحب بچوں کو سبق میں آنے والے ہر مشکل لفظ کا مفہوم بھی بتا رہے تھے بعض بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ مشکل الفاظ کے ساتھ ساتھ آسان الفاظ کے معنی بھی پوچھتے ہیں۔ ایک بچے نے اپنے استاد سے ’’انصاف‘‘ کا مطلب پوچھ گیا ان کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ ہمارے معاشرے میں ’’انصاف‘‘ نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اس لیے اس بچے کی ایسی تشفی کی جائے کہ اسے اپنی نانی یاد آ جائے۔ استاد صاحب نے اپنے شاگرد سے کہا کہ اب کان میری وضاحت کی طرف لگا دینا جس طرح اجالا اندھیرے سے، تندرستی بیماری سے، چھوٹا بڑے سے نیک بد سے اور زندگی موت سے سمجھ میں آتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں انصاف کی تفہیم ظلم سے ہو گی۔
بیٹے! جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، ہم نے ظُلم کی داستانیں ہی سنی ہیں ایک ظلم کے بعد دوسرا ظلم، پھر تیسرا ظلم، چوتھا، پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں، نواں اور دسواں یہاں اتنے ظلم ہو چکے ہیں کہ ان کی گنتی کیلئے کیلکُولیٹر استعمال کرنا پڑتا ہے پھر کیلکُولیٹر بھی عاجز آ جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ظلم کو دیکھنا ہو تو تصور میں ایک بہت سی طویل قامت شخص لے آئو۔ آپ اس شخص کے ہاتھ دیکھیں گے تو آپ کی آنکھ اتنی مسافت طے کرے گی کہ آپ کی بصارت کمزور ہو جائے گی۔ شاید آپ کی بصارت اتنی صرف ہو جائے کہ آپ کو نظر آنا بند ہو جائے۔
’’سر! طالب علم نے معصومیت سے پوچھا ہمارے ہاں ظلم کیا کام کرتا ہے۔
’’بیٹے! ہمارے ہاں ظُلم کرتا ہے۔ اس کا کاروبار بہت وسیع وعریض ہے۔ ہمارے ہاں پورے پاکستان میں ظلم کی ایجنسیاں کُھلی ہوئی ہیں۔ ظلم ہمارے ہاں غریب امیر کی تخصیص کیے بغیر اس کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے اپنے کھیتوں میں ظلم ہی کا تو بیج بویا ہے۔ اب یہ کھیت ظلم کی فصلوں سے لہلہاتے دکھائی دیتے ہیں۔
طالب علم! سر! ظلم کے ہاتھ تو سمجھ میں آ گئے ہیں لیکن اس کا پورا حلیہ کیا ہے وہ بھی سمجھا دیجئے۔
استاد: اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ تم کسی دن چڑیا گھر جا کر چیتے، بھیڑیے وغیرہ دیکھ آئو تو تمہیں پھر بھی سمجھ نہیں آئے گی۔
بس تم اتنا ذہن میں رکھ کہ ہمارے ہاں ہونے والے ظلم کی شکلیں جنگلی درندوں سے کہیں زیادہ بھیانک اور خوفناک ہیں۔
طالب علم! سر! کوئی مثال بھی دیجئے۔
استاد: لالیاں کے نواحی علاقے مارو بھٹیاں اور مظفر گڑھ کی طالبہ نے ظلم سے تنگ آ کر خودسوزی کر لی ہے ہمارے سارے چینل ان مظالم کی داستانیں سنا رہے ہیں۔
طالب علم! سر ابھی انصاف کی سمجھ نہیں آتی اس پر بھی روشنی ڈال دیجئے۔
استاد: انصاف تو ہمارے ہاں کبھی نظر ہی نہیں آیا۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ جب آسمان پر کالے بادل آ جائیں تو چاند نظر نہیں آتا۔ یہاں ظلم ہی کے کالے بادل ہی چھائے رہتے ہیں۔
طالب علم: سر! اس کی وجہ؟
استاد: بیٹے! ہم نے کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ انصاف بھی لاگو کرنا ہے یا اس کو عمل میں لانا ہے کسی چیز کو سکیھنا چاہیں یا اسے عملی صورت میں دیکھنا چاہیں تو اس کیلئے ابتدا میں کوئی مشق یا ریاضت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب تم نے سائیکل چلانا سیکھا ہو گا تو چند الٹے سیدھے پیڈل مارے ہونگے اور پھر دو ایک مرتبہ اپنی سائیکل کسی دیوار میں بھی دے ماری ہو گی پھر تم سائیکل چلانا سیکھ گئے ہو گے۔
بیٹے! ہم نے انصاف کرنے کی کبھی جاچ ہی نہیں سیکھی۔ ہمیں انصاف کی مثالیں بہت سی آتی ہے۔ ہم حضرت عمرؓ کے الفاظ فوراً دہرا دیتے ہیں۔ ہم انصاف کی وضاحت وصراحت کرنے کیلئے مستند ومعتبر کُتب کے بہت سے حوالے بھی دے دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں انصاف دینے دلانے کے بارے میں بہت سے مشورے بھی دیتی ہیں اور ایک پوری سیاسی جماعت تحریک انصاف بھی سامنے آ چکی ہیں۔ بیٹے! ابھی سب کچھ زبانی کلامی ہو رہا ہے۔ مجھے امید ہے تمہیں انصاف کی سمجھ آ چکی ہو گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024