حضرت حافظ محمد عمر بیربل شریف
پروفیسر محمد اسلم
کسی مرد کامل کے حالات زندگی کا تذکرہ پیش کا مقصد سوائے اس کے نہیں کہ پڑھنے والوں نے نمونہ ہو اور وہ اپنی زندگیوں کو اس سانچے میں ڈھالنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اسی مقصد کے مدنظر ہم حضرت میاں شیرمحمد شرقپوری کے خلیفہ اور اعلیٰ حضرت غلام مرتضیٰ بیربلوی کے نبیرہ معظم‘ ولی کامل اور مجدد طریقت حضرت محمد عمر (بیربل شریف) کے حالات زندگی کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
آپ کے دادا حضرت اعلیٰ غلام مرتضیٰ قطب القطاب حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری کے خلیفہ اور حضرت غلام نبی للہی کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ کامل ولی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ بلند مرتبہ عالم تھے اور بیربل شریف کی مسجد میں خانقاہ عالیہ نقشبندیہ کے شہ نشین اور ایک اعلیٰ پایہ کی دینی درسگاہ کے مرکز و محور تھے۔ آپ کے چشمہ علم عرفان سے ہزار رہا لوگوں نے فیض حاصل کیا۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ نے بڑے صاحبزادہ احمد سعید نے مسند ارشاد اور درس و تدریس کی ذمہ داری سمبھالی۔ انہیں حضرت احمد سعید کے ہاں حضرت قبلہ عالم محبوب الٰہی محمد عمر کی پیدائش ذی الحج 1305ء بمطابق 1886ء بیربل شریف میں ہوئی۔ آپ نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا اور اپنے دادا کی زندگی میں ہی شرح جامی تک درس نظامی کی کتب پر عبور حاصل کیا۔ بعد میں اورنٹیل کالج لاہور سے مولوی فاضل منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ انگریزی اورتعلیم کے لئے دہلی تشریف لے گئے۔ آپ نے پروفیسر قاضی ضیاء الدین ایم اے‘ مولانا عبداللہ ٹونکی‘ ڈپٹی نذیر احمد اور فخر العلماء مولانا کفائت اللہ جیسے اپنے عہد کے نامور علماء سے استفادہ کیا۔ ترجمہ القرآن کے لئے مولانا حاجی احمد لاہوری سے مستفید ہوئے۔ تکمیل تعلیم کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں علوم شرقیہ کے پروفیسر کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ جب 1919ء میں آپ کے والد محترم حضرت مولانا احمد سعید کا انتقال ہوا تو خانقاہ عالیہ بیربل شریف کی ذمہ داری آپ نے سمبھالی اور ملازمت ترک کر کے بیربل شریف میں تعلیم و تدریس اور رشد و ہدایت کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔
گو آپ نے خانقاہ عالیہ نقشبندیہ بیربل شریف سجادہ نشینی کا منصب سمبھال لیا لیکن آپ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جب تک کسی شیخ کامل کی نگاہ دلنواز کا شکار ہو کر اصل مقصود حاصل نہ ہو یہ سجادہ نشینی محض ایک روائتی منصب ہے۔ لہذا آپنے مرشد کامل کی تاش جاری رکھی۔ چنانچہ مالک فضاء قدر نے آپ کو غوث زمان حضرت میاں شیر محمد شرقپوری کی بارگاہ میں پہنچا دیا۔ پہلی حاضری میں جب حضرت میاں صاحب کے دریافت فرمانے پر آپ نے بتایا کہ آپ کا تعلق بیربل شریف سے ہے اور یہ کہ آپ اعلیٰ حضرت بیربل والا کے پوتے ہیں تو والہانہ انداز میں آپ کو اپنی بغل میں لے لیا اور فرمایا ’’ پھر تو بابے کانور ہے۔‘‘ تین دن اپنے پاس رکھا۔ گھریلو اور خاندانی حالات سے آگا حاصل کی خصوصی توجہ فرمانے کے ساتھ تلقین ذکر فرمائی۔ رخصت کے وقت ارشاد فرمایا ’’اپنے جد امجد کو اپنا پیشوا خیال کرنا جو کچھ وہ کرتے تھے وہی کرتے رہنا اسی میں سب کچھ حاصل ہو جائے گا‘‘ آپ کو سینہ سے لگایا وار دیر تک بغلگیر رہے۔ حضرت صاحب نے محسوس کیا کہ فیوضات روحانی حضرت میاں صاحب کے سینہ سے آپ کے سینہ میں منتقل ہو رہے ہیں۔ باپ دادا کی تربیت سے جو روحانیت آپ کے اندر موجزن تھی حضرت میاں صاحب کے فیوضات باطنی نے اسے نقطہ عروج پر پہنچا دیا۔ آپ کے وجود پاک سے بیربل شریف میں خانقاہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ چاردانگ عالم میں مشہور ہوئی۔ آج کے گئے گزرے دور میں ایک کامل انسان اور ایک حقیقی مسلمان میں جتنی اعلیٰ صفات ہونی چاہئیں آپ نے ان کا کامل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے’’رشد و ارشاد کیا ہے؟ یہی خدمت خلق اس سے بڑھ کر کیا خدمت خلق ہو سکتی ہے کہ خلق خدا کو غلط راستے سے صحیح راستے پر گامزن کر کے اس کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف پھیر دیا جائے۔‘‘
پنجاب کے اضلاع سرگودھا‘ گجرات‘ گوجرانوالہ‘ شیخوپورہ‘ لاہور اور قصور کے ہزاروں خاندان خانقاہ بیربل شریف سے متوسلین چلے آ رہے تھے۔ حضرت فیلہ عالم کے دور میں ان میں کئی خانقاہ بیربل شریف سے متوسلین چلےآ رہے تھے۔ حضرت فیلہ عالم کے دور میں ان میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ آپ کی نظر عنایت امیر غریب ہر ایک کو یکساں فیض رساں تھی۔ جب کسی گائوں میں تشریف لے جاتے تو اکثر مسجد میں قیام فرماتے اور طعام میں سادگی پر زور دیتے تاکہ میزبان کے لئے آسانی ہو۔
آپ چونکہ ظاہری علوم … مند تھے اور گہرا معاشرتی اور عمرانی مشاہدہ رکھتے تھے۔ اس لئے طریقت میں اپنا منفرد طریقہ اختیار فرمایا۔ رسوم و رواج سے بلند تر ہو کر صرف حقیقت اور مقصد پر نظر رکھی۔ ظاہری اعمال ‘ اتباع رسولؐ کے ساتھ ساتھ باطن پر پوری توجہ مرکوز رہتی۔ باتوں ہی باتوں میں ہر ایک سالک فیض یاب ہوتا تھا۔ آپ جذب کامل کے مالک تھے۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر فرد محسوس کرتا کہ تاثیراتسینہ میں آ رہی ہیں۔ گناہ سے نفرت اور ذکر اللہ سے رغبت پیدا ہو جاتی۔ جدید اور قدیم تعلیم یافتہ ایک ساتھ اس چشمہ فیض سے سیراب ہو رہے ہوتے۔ نہ ریاض نہ وظائف نہ اشغال بلکہ روز مرہ کے نماز روزہ اور ذکر و فکر سے ہی سالک سارے مقامات طے کر لیتا ہے۔ حضرت میاں صاحب کے خلفاء میں آپ اس لحاظ سے منفرد مقام رکھتے ہیں کہ آب صاحب حال ہونے کے ساتھ تصوف اسلامی کے ترجمان بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے تصوف اسلام پر کئے گئے اعتراضات کے مدلل جوابات اپنے مقالات میں پیش کئے اور معارف الٰہیہ کو اس حسن و خوبی سے اپنی تحریروں میں اجاگر کیا کہ ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مکتوبات امام ربانی کے بعد تصوف اسلام میں آپ کی تحیروں کا دوسرا نمبر ہے۔
آپ کی تصنیفات میں انقلاب الحقیقت‘ زنبیل عمر‘ طریقت کی حقیقت‘ قرآنی نظریہ حیات‘ سلوک اور مقصد‘ صراط مستقیم ‘ الہونی وغیرہ نمایاں ہیں۔ حقائق و معارف کے نام سے آپ کے مقالات کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔
تصوف اسلامی کی خدمت کے لئے ادارہ تصوف کے نام سے ایک مجلس قائم فرمائی اور سلسبیل نے نام سے ایک رسالہ لاہور سے جاری فرمایا اور اپنے مرید صادق حضرت حاجی فضل احمد کو اس کا مدیر مقرر فرمایا۔
تحریک پاکستان میں دوسرے مشائخ غلام عظام کے ساتھ آپ نے بھی اپنا پور اثر و رسوخ استعمال کیا۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ایک موقعہ پر میاں ممتاز دولتانہ نے آپ کو ضلع ساہیوال میں دوتین مربع زمین لنگر کے الاٹ کرنے کی پیشکش کی تو آپ نے ارشاد فرمایا۔
’’میاں صاحب میں ایک درویش آدمی ہوں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اس علاقہ میں کئی فقیر ہوں گے یہ زمین آپ انہیں الاٹ کر دیں گے‘‘۔
آپ نے ہمیشہ نیاز مندی کو پسند فرمایا۔ ہمیشہ اپنی کرامات کو اپنے بزرگوں کی برکت قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا مقام و مرتبہ اخفا ہی میں رہا اور بہت کم لوگ آپ کے بلند مقام ولائت کا اندازہ کر سکے۔
محبت کا یہ مجسمہ‘ الفت کا یہ پیکر‘ تسکین و طمانیتکا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا۔ سمندر‘ رحمت و شفقت کا یہ آفتاب عالم تاب آخر 26 اگست 1967ء بمطابق 19جمادی الاول 1387ھ کو اپنے محبوب حقیقی سے جا ملا۔ آپ کے خلیفہ حضرت حاجی فضل احمد نے آپ روضہ تعمیر کروا دیا جو زیارت گاہ خاص و عالم ہے۔ روضہ کے ساتھ مسجد میں قرآن پاک کے حفظ و ناظرہ اور ابتدائی تعلیم کے مدرسہ بھی قائم ہے۔ آپ کے صاحبزادہ اور سجادہ نشین حضرت خالد سیف اللہ خانقاہ اور مدرسہ کا انتظام نہائت حسن و خوبی سے سمبھالے ہوئے ہیں اور اپنے بزرگوں کے فیض کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(انوار عمر مؤلفہ پروفیسر غلام عابد خاں)