اقوام متحدہ کے مشیر نے کہا ہے‘ بھارت 20 ہزار ایکڑ پر جنگلات صاف کرکے 45 نئے ڈیم بنا رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مشیر ارشد حمید عباس نے کہا ہے کہ کرکٹ میچ فکسنگ کی طرح سندھ طاس معاہدے کو بھی فکس کیا جا رہا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ بھارت ایسے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ پاکستان کو اپنا باجگزار غلام بنا کر رکھے۔ اس طرح پاکستان ہمیشہ کیلئے بھارت کا دست نگر ہو جائیگا۔ سندھ طاس معاہدہ واقعی کرکٹ میچ فکسنگ کی طرح ہو چکا ہے اور بھارت اس میچ فکسنگ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہماری طرف سے جن لوگوں نے یہ میچ فکسنگ کی تھی‘ وہ فائدہ اٹھا کر اور پاکستان کو بنجر بنا کر قبروں میں جا سو رہے ہیں۔ اب اس کا ایک ہی جواب ہے کہ پاکستان بھارت کو فکس اپ کرے‘ اس لئے کہ اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار بھی نہیں رہا۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ امن آشا مہم چلا کر یا مذاق رات کرکے بھارت سے اپنے حصے کا پانی لے لیں گے‘ یا اسے مزید ڈیم بنانے سے روک لیں گے تو یہ دیوانے کا خواب ہو گا۔ بہتر تعلقات کا ناٹک رچانے کیلئے بھارت اپنی ناچیاں بھیج تو بھیج دیگا مگر ہمارا پانی واگزار نہیں کریگا۔ اقوام متحدہ کے مشیر کا یہ کہنا کہ بھارت بیس ہزار ایکڑ پر جنگلات صاف کرکے 45 نئے ڈیم بنا رہا ہے‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کو مٹا کر اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے‘ پاکستان کے پاس اب جواباً صرف ایٹم بم ہی رہ گیا ہے‘ جس پر پوری دنیا کو غور کرنا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
اپٹما کی ملک بھر میں علامتی ہڑتال گورنر پنجاب سے مذاکرات کے بعد ختم ہو گئی۔
پاکستان میں صنعت و حرفت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس میدان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی‘ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ہے‘ جو ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مگر گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے اس ٹیکسٹائل کی صنعت کو پروموٹ کرنے کے بجائے ڈی موٹ کیا۔ دھاگے کی برآمد پر کوٹہ سسٹم لاگو کرکے اپنی ٹیکسٹائل ملوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کیخلاف آل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک بھر میں علامتی ہڑتال کی گئی۔
گورنر پنجاب نے صدر کی ہدایت پر مذاکرات کے ذریعے اپٹما کو یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی انکے مطالبات پورے کر دیئے جائینگے جبکہ اپٹما نے الٹی میٹم دیا کہ 14 دنوں میں مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو دوبارہ ہڑتال کرینگے۔ حالت یہ رہی کہ دھاگے کا برآمدی کوٹہ مقرر کرنے کیخلاف 300 سپیننگ ملیں بند ہیں‘ آجکل حالت یہ ہے کہ حکومت بھی قائم ہے اور مسائل بھی قائم ہیں اور حکمران اسی میں خوش ہیں۔ اگر ہم آج اپنے گھریلو مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں اور پیدا کرنے میں کامیاب تو ہم بھارت کے ساتھ اٹھنے والے مسائل کے حل کیلئے کیا خاک پیش رفت کرینگے‘ اتنے مسائل کھڑے کردیئے گئے ہیں کہ قوم انہیں حساب کے پہاڑوں کی طرح یاد کر رہے ہیں اور حکومت مانیٹر بن کر سن رہی ہے کہ کہیں کوئی غلط پہاڑا تو نہیں سنا رہا؟
٭…٭…٭…٭
چیئرپرسن قائمہ کمیٹی شبینہ ریاض نے کہا ہے پیپلز پارٹی آئینی پیکیج جلد قومی اسمبلی میں پیش کریگی۔
اگر شبینہ ریاض کی یہ بات پوری ہو جائے تو انکے منہ میں گھی شکر۔ 1973ء کا آئین اس بے دردی سے چھیڑا جاتا رہا ہے کہ اس میں ہر قسم کا رطب ویابس جمع کر دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسا آئینی پیکیج لانے میں کامیاب ہو جائے جو نجاستوں سے پاک ہو تو یہ واقعتاً ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ شبینہ ریاض پیپلز پارٹی کی بڑی فعال اور مخلص خاتون ہیں‘ اگر انکے کہنے کے مطابق ایک پاک صاف آئینی پیکیج آجائے تو انہیں حسینہ ریاض بھی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں 1973ء کے آئین کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا اور جس طرح سے اسے اس ملک کے آئین کے درجے سے گرایا گیا‘ وہ ناقابل تلافی جرم اور نقصان ہے۔ مگر صدر زرداری نے جس طرح کہا ہے کہ وہ قوم کو ایک صاف ستھرے آئینی پیکیج کا تحفہ دینے والے ہیں‘ تو یہ ان کا ملک و قوم پر بڑا احسان ہو گا اور گزشتہ ادوار میں جس بیدردی سے آئین سے مطلب براری کی گئی اور اپنی سفلی خواہشات کی خاطر آئین کو تحریف شدہ دستاویز بنایا گیا‘ اسکے برے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ شبینہ ریاض قائم کمیٹی کی چیئرپرسن ہیں اور اندر ہی اندر سے یہ بھی چاہتی ہونگی کہ آئین کی تطہیر کے ساتھ پارٹی کی بھی تطہیر کی جائے تو وہ اس سلسلے میں متحرک ہو سکتی ہیں کیونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے۔ وہ چاہیں تو اسمبلی کے ذریعے وہ کام بھی کرا سکتی ہیں جو اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ یوں نشستند و گفتند و برخاستند والی اسمبلی عوام کے پیسے ضائع کرنے کے سوا کیا کر سکتی ہے۔ اسمبلی ستائش باہمی یا آویزش باہمی کے ماحول کیلئے بھی اپنے نیک خصلت ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحریک چلا سکتی ہیں۔
٭…٭…٭…٭
سمندری کے ہونہار نوجوان نے گریجوایشن تک تعلیم دینے والا سافٹ ویئر بنا لیا۔
اگر اسطرح کے ہونہار نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں جو سافٹ ویئر کے ذریعے گریجوایشن کراسکتے ہیں تو اس ملک میں کالجوں کی تو شاید ضروت ہی نہ رہے۔ سمندری ایک قصبہ ہے اور وہاں ظفر حبیب جیسے باصلاحیت نوجوان نے جو سائنسی کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ اسکی حکومت کو بھرپور پذیرائی کرنی چاہئے۔ ظفرحبیب کا دعویٰ ہے کہ انگلش‘ اردو اور ریاضی کا ایک ہفتے کا کام میرا سافٹ ویئر صرف ایک دن میں سکھا سکتا ہے۔ ظفر حبیب نے وزیراعلیٰ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے‘ امید ہے کہ وزیراعلیٰ اس نوجوان کی قدر افزائی و حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنا پراجیکٹ مکمل کرنے کیلئے فنڈز بھی فراہم کرینگے۔ اس وقت ملک میں موجود سافٹ ویئر کمپنیوں کو بھی اس نوجوان سے رابطہ کرکے اسکی مدد کرنی چاہئے‘ سافٹ ویئر کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوران تعلیم غلطی کی اصلاح کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ بھارت ایسے منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ پاکستان کو اپنا باجگزار غلام بنا کر رکھے۔ اس طرح پاکستان ہمیشہ کیلئے بھارت کا دست نگر ہو جائیگا۔ سندھ طاس معاہدہ واقعی کرکٹ میچ فکسنگ کی طرح ہو چکا ہے اور بھارت اس میچ فکسنگ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہماری طرف سے جن لوگوں نے یہ میچ فکسنگ کی تھی‘ وہ فائدہ اٹھا کر اور پاکستان کو بنجر بنا کر قبروں میں جا سو رہے ہیں۔ اب اس کا ایک ہی جواب ہے کہ پاکستان بھارت کو فکس اپ کرے‘ اس لئے کہ اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار بھی نہیں رہا۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ امن آشا مہم چلا کر یا مذاق رات کرکے بھارت سے اپنے حصے کا پانی لے لیں گے‘ یا اسے مزید ڈیم بنانے سے روک لیں گے تو یہ دیوانے کا خواب ہو گا۔ بہتر تعلقات کا ناٹک رچانے کیلئے بھارت اپنی ناچیاں بھیج تو بھیج دیگا مگر ہمارا پانی واگزار نہیں کریگا۔ اقوام متحدہ کے مشیر کا یہ کہنا کہ بھارت بیس ہزار ایکڑ پر جنگلات صاف کرکے 45 نئے ڈیم بنا رہا ہے‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کو مٹا کر اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے‘ پاکستان کے پاس اب جواباً صرف ایٹم بم ہی رہ گیا ہے‘ جس پر پوری دنیا کو غور کرنا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
اپٹما کی ملک بھر میں علامتی ہڑتال گورنر پنجاب سے مذاکرات کے بعد ختم ہو گئی۔
پاکستان میں صنعت و حرفت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس میدان میں کوئی ترقی نہیں ہوئی‘ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ہے‘ جو ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ مگر گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے اس ٹیکسٹائل کی صنعت کو پروموٹ کرنے کے بجائے ڈی موٹ کیا۔ دھاگے کی برآمد پر کوٹہ سسٹم لاگو کرکے اپنی ٹیکسٹائل ملوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کیخلاف آل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے ملک بھر میں علامتی ہڑتال کی گئی۔
گورنر پنجاب نے صدر کی ہدایت پر مذاکرات کے ذریعے اپٹما کو یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی انکے مطالبات پورے کر دیئے جائینگے جبکہ اپٹما نے الٹی میٹم دیا کہ 14 دنوں میں مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو دوبارہ ہڑتال کرینگے۔ حالت یہ رہی کہ دھاگے کا برآمدی کوٹہ مقرر کرنے کیخلاف 300 سپیننگ ملیں بند ہیں‘ آجکل حالت یہ ہے کہ حکومت بھی قائم ہے اور مسائل بھی قائم ہیں اور حکمران اسی میں خوش ہیں۔ اگر ہم آج اپنے گھریلو مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں اور پیدا کرنے میں کامیاب تو ہم بھارت کے ساتھ اٹھنے والے مسائل کے حل کیلئے کیا خاک پیش رفت کرینگے‘ اتنے مسائل کھڑے کردیئے گئے ہیں کہ قوم انہیں حساب کے پہاڑوں کی طرح یاد کر رہے ہیں اور حکومت مانیٹر بن کر سن رہی ہے کہ کہیں کوئی غلط پہاڑا تو نہیں سنا رہا؟
٭…٭…٭…٭
چیئرپرسن قائمہ کمیٹی شبینہ ریاض نے کہا ہے پیپلز پارٹی آئینی پیکیج جلد قومی اسمبلی میں پیش کریگی۔
اگر شبینہ ریاض کی یہ بات پوری ہو جائے تو انکے منہ میں گھی شکر۔ 1973ء کا آئین اس بے دردی سے چھیڑا جاتا رہا ہے کہ اس میں ہر قسم کا رطب ویابس جمع کر دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسا آئینی پیکیج لانے میں کامیاب ہو جائے جو نجاستوں سے پاک ہو تو یہ واقعتاً ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ شبینہ ریاض پیپلز پارٹی کی بڑی فعال اور مخلص خاتون ہیں‘ اگر انکے کہنے کے مطابق ایک پاک صاف آئینی پیکیج آجائے تو انہیں حسینہ ریاض بھی کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں 1973ء کے آئین کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا گیا اور جس طرح سے اسے اس ملک کے آئین کے درجے سے گرایا گیا‘ وہ ناقابل تلافی جرم اور نقصان ہے۔ مگر صدر زرداری نے جس طرح کہا ہے کہ وہ قوم کو ایک صاف ستھرے آئینی پیکیج کا تحفہ دینے والے ہیں‘ تو یہ ان کا ملک و قوم پر بڑا احسان ہو گا اور گزشتہ ادوار میں جس بیدردی سے آئین سے مطلب براری کی گئی اور اپنی سفلی خواہشات کی خاطر آئین کو تحریف شدہ دستاویز بنایا گیا‘ اسکے برے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ شبینہ ریاض قائم کمیٹی کی چیئرپرسن ہیں اور اندر ہی اندر سے یہ بھی چاہتی ہونگی کہ آئین کی تطہیر کے ساتھ پارٹی کی بھی تطہیر کی جائے تو وہ اس سلسلے میں متحرک ہو سکتی ہیں کیونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے۔ وہ چاہیں تو اسمبلی کے ذریعے وہ کام بھی کرا سکتی ہیں جو اسمبلی کی ذمہ داری ہے۔ یوں نشستند و گفتند و برخاستند والی اسمبلی عوام کے پیسے ضائع کرنے کے سوا کیا کر سکتی ہے۔ اسمبلی ستائش باہمی یا آویزش باہمی کے ماحول کیلئے بھی اپنے نیک خصلت ساتھیوں کے ساتھ مل کر تحریک چلا سکتی ہیں۔
٭…٭…٭…٭
سمندری کے ہونہار نوجوان نے گریجوایشن تک تعلیم دینے والا سافٹ ویئر بنا لیا۔
اگر اسطرح کے ہونہار نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں جو سافٹ ویئر کے ذریعے گریجوایشن کراسکتے ہیں تو اس ملک میں کالجوں کی تو شاید ضروت ہی نہ رہے۔ سمندری ایک قصبہ ہے اور وہاں ظفر حبیب جیسے باصلاحیت نوجوان نے جو سائنسی کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ اسکی حکومت کو بھرپور پذیرائی کرنی چاہئے۔ ظفرحبیب کا دعویٰ ہے کہ انگلش‘ اردو اور ریاضی کا ایک ہفتے کا کام میرا سافٹ ویئر صرف ایک دن میں سکھا سکتا ہے۔ ظفر حبیب نے وزیراعلیٰ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے‘ امید ہے کہ وزیراعلیٰ اس نوجوان کی قدر افزائی و حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنا پراجیکٹ مکمل کرنے کیلئے فنڈز بھی فراہم کرینگے۔ اس وقت ملک میں موجود سافٹ ویئر کمپنیوں کو بھی اس نوجوان سے رابطہ کرکے اسکی مدد کرنی چاہئے‘ سافٹ ویئر کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوران تعلیم غلطی کی اصلاح کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔