نصرت مرذا
سلمان تاثیر کیوں اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے؟ اس لئے کہ وہ اپنے صوبے میں ہونیوالے سیاسی تغیرات سے ناواقف تھے، وہ پرانی دُنیا میں رہ رہے تھے جب پنجاب اسمبلی کے ممبران کا مزاج لاہور کے صوبائی حکمرانوں کے مزاج کیمطابق بن جاتا تھا، وہ طاقت، مراعات، لالچ اور لبھائو کی وجہ سے اپنی خواہشات، اپنی آزادی کو کھو بیٹھتے تھے اور سچ و حق کے راستے سے ہٹ کر آمروں کی مرضی پر چل پڑتے تھے، مگر اب پنجاب تبدیل ہوگیا ہے، اس میں اب جمہوریت کیلئے تڑپ زیادہ ہوگئی ہے، اگرچہ اُنکے بنیادی کشش کے مراکز کم و بیش پہلے والے ہیں، جیسے وہ بہادروں کی قدر کرتے ہیں اور اُن کیساتھ جذباتی طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف 15 مارچ 2009ء کو خطرہ مول لیکر اور خطرہ بھی زندگی کا، اپنے پرتعیش گھر سے باہر نہ نکلتے تو شاید پاکستان کی تاریخ نہ بدلتی اور 2 نومبر 2007ء کی عدلیہ بحال نہ ہوتی۔ اب یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ عوام اُنکے نکلتے ہی، ہمت کر بیٹھے اور لاہور کی سڑکوں پر آکر میاں محمد نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
ہمارے خیال میں اس عمل میں حسن انتظام اور منصوبہ بندی کو بھی عمل دخل تھا۔ میڈیا کے بھرپور کردار اور اُنکی عوامی مقبولیت کی وجہ سے پنجاب کی بدنام زمانہ پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ ایک لیڈر کے مصمم عزم کا پیغام تھا جس نے امریکہ تک کو راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اخباری اطلاعات کیمطابق امریکی میاں نواز شریف کے امریکہ کی درخواست کو رد کرنے پر ششدر ہوکر رہ گئے تھے۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے مشہور انقلاب فرانس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی منصوبہ بند انقلاب تھا صرف چند ہزار افراد نکلے تھے مگر اُس کے پیچھے عوام اور اشرافیہ کی طاقت تھی جس نے فرانس کی تقدیر بدل ڈالی تھی۔
اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ پنجاب یکسر جمہوریت اور اصولوں کی سیاست علمبردار ہوگیا ہے، البتہ یہ کلیتہً درست ضرور پائے گا کہ میاں نواز شریف نے حالات پر مکمل گرفت، جمہوری پسند اور بدعہدیوں سے نالاں دوسری پارٹیوں کیساتھ اپنی طاقت کو جوڑنے کے بعد حاصل کی اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے دبائو اور لبھائو کے ہتھکنڈے ناکام ہوئے۔ تلوین سنگھ کے صحافی بیٹے اور سلمان تاثیر کی ناجائز اولاد نے اپنے باپ کے بارے میں درست ہی کہا تھا کہ اتنے دولت مند ہونے کے بعد گورنر بننے کی خواہش غیر ضروری تھی۔ وہ عوام کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان نظریاتی اختلاف کی گہرائی کو بھی نہیں سمجھتے، پھر وہ یہ بھی نہ جان سکے کہ پیپلز پارٹی اس وقت آصف علی زرداری کی قیادت کے بحران سے گزر رہی ہے۔ جو خود اپنی اولاد تک میں غیر مقبول ہیں۔ حادثاتی طور پر وہ اس پارٹی پر قابض ہوگئے ہیں اور ایسے وقت میں جب پی پی پی کے سب رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر دم بہ خود تھے اور اس وقت جب جناب آصف علی زرداری نے پی پی پی کی کمان سنبھالی تو انہوں نے بادل نخواستہ خاموشی اختیار کی اگرچہ وہ جانتے تھے کہ محترمہ، آصف علی زرداری کو سیاست سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔ اُن کا ایک دم قومی موقف اپنانے نے بھی شک و شبہ کو جنم دیا۔ اس لئے پنجاب کے عملی سیاستدانوں کیلئے سلمان تاثیر کے ساتھ نتھی ہونا مشکل کام تھا۔ اس وجہ سے وہ اور جناب منظور وٹو صاحب ملکر بھی پنجاب میں حکومت بنانے کا وہ ہدف حاصل نہ کرسکے جس کا وہ گورنری کے آداب کو بالائے طاق رکھ کر اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ پنجاب میں پی پی پی کی حکومت قائم کردیں گے۔ شہباز شریف پر اگرچہ اُنکے سخت مزاج اور نظم و ضبط کے حوالے سے سخت گیر ہونے کے الزامات لگے مگر اُن کو عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے اور دو روپے کی روٹی دستیاب کرنے پر انہیں غیرمعمولی مقبولیت نصیب ہوئی۔ پھر مرکز میں ایک چھوٹے درجے کا پولیس افسر جس کو تربیت کی ضرورت تھی، جسے عوام کے مزاج سے واقفیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا‘ وہ ملک کا مشیر داخلہ بنا دیا گیا تھا، جس نے طاقت کا غیر ضروری استعمال کرکے پنجاب کے عوام کو خصوصاً اور ملک کے عوام کو عموماً مقید کردیا تھا۔ جس نے بدانتظامی کو نمایاں اور ایک اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کے مزاج اور خواہش کو الم نشرح کردیا۔ صوبہ پنجاب کے عوام پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ایثار شعار بھی ہیں اگرچہ بیورو کریسی اور دیگر معاملات میں کشمکش اُنکے اِن صفات کو دھندلا ضرور کر دیتی ہے مگر یکسر ختم نہیں کرتی‘ اس لئے پنجاب کے ممبران اسمبلی کی بولی لگائی نہ جاسکی۔ اس وقت بھی یہ بڑبڑا ضرور رہے تھے جب وہ ایک آمر کو ووٹ دینے کیلئے آرمی ہائوس پنڈی گئے تھے مگر اس وقت اُنکے پاس وہ قیادت موجود نہیں تھی جو اب دستیاب ہے۔
پنجاب میں کئی اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پنجاب کے عوام تکالیف سے دور رہتے ہیں یا کسی تحریک میں بھرپور کردار ادا نہیں کرتے یا دیر سے اس طرف راغب ہوتے ہیں، مجھے میرے ایک دوست نے آج سے تقریباً دس سال پہلے یہ کہہ کر حیران کردیا تھا کہ ایسا نہیں ہے، اب پنجاب کا ہر چھٹا نوجوان جہاد میں حصہ لے رہا ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ پنجاب کو انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہئے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو سندھ، بلوچستان اور سرحد میں بھی اثرو رسوخ بڑھانا چاہئے۔ جس کے امکانات روشن ہیں۔ انہوں نے پنجاب کو بیدار تو کرلیا مگر شاید اِن صوبہ جات میں اُن کو زیادہ محنت کرنا پڑے اور انہیں کرنا چاہئے تاکہ پھر کسی طالع آزما کے کسی کارڈ کے استعمال کا خطرہ باقی نہ رہے۔
سلمان تاثیر کیوں اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے؟ اس لئے کہ وہ اپنے صوبے میں ہونیوالے سیاسی تغیرات سے ناواقف تھے، وہ پرانی دُنیا میں رہ رہے تھے جب پنجاب اسمبلی کے ممبران کا مزاج لاہور کے صوبائی حکمرانوں کے مزاج کیمطابق بن جاتا تھا، وہ طاقت، مراعات، لالچ اور لبھائو کی وجہ سے اپنی خواہشات، اپنی آزادی کو کھو بیٹھتے تھے اور سچ و حق کے راستے سے ہٹ کر آمروں کی مرضی پر چل پڑتے تھے، مگر اب پنجاب تبدیل ہوگیا ہے، اس میں اب جمہوریت کیلئے تڑپ زیادہ ہوگئی ہے، اگرچہ اُنکے بنیادی کشش کے مراکز کم و بیش پہلے والے ہیں، جیسے وہ بہادروں کی قدر کرتے ہیں اور اُن کیساتھ جذباتی طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف 15 مارچ 2009ء کو خطرہ مول لیکر اور خطرہ بھی زندگی کا، اپنے پرتعیش گھر سے باہر نہ نکلتے تو شاید پاکستان کی تاریخ نہ بدلتی اور 2 نومبر 2007ء کی عدلیہ بحال نہ ہوتی۔ اب یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ عوام اُنکے نکلتے ہی، ہمت کر بیٹھے اور لاہور کی سڑکوں پر آکر میاں محمد نواز شریف سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
ہمارے خیال میں اس عمل میں حسن انتظام اور منصوبہ بندی کو بھی عمل دخل تھا۔ میڈیا کے بھرپور کردار اور اُنکی عوامی مقبولیت کی وجہ سے پنجاب کی بدنام زمانہ پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ یہ ایک لیڈر کے مصمم عزم کا پیغام تھا جس نے امریکہ تک کو راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اخباری اطلاعات کیمطابق امریکی میاں نواز شریف کے امریکہ کی درخواست کو رد کرنے پر ششدر ہوکر رہ گئے تھے۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے مشہور انقلاب فرانس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بھی منصوبہ بند انقلاب تھا صرف چند ہزار افراد نکلے تھے مگر اُس کے پیچھے عوام اور اشرافیہ کی طاقت تھی جس نے فرانس کی تقدیر بدل ڈالی تھی۔
اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ پنجاب یکسر جمہوریت اور اصولوں کی سیاست علمبردار ہوگیا ہے، البتہ یہ کلیتہً درست ضرور پائے گا کہ میاں نواز شریف نے حالات پر مکمل گرفت، جمہوری پسند اور بدعہدیوں سے نالاں دوسری پارٹیوں کیساتھ اپنی طاقت کو جوڑنے کے بعد حاصل کی اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے دبائو اور لبھائو کے ہتھکنڈے ناکام ہوئے۔ تلوین سنگھ کے صحافی بیٹے اور سلمان تاثیر کی ناجائز اولاد نے اپنے باپ کے بارے میں درست ہی کہا تھا کہ اتنے دولت مند ہونے کے بعد گورنر بننے کی خواہش غیر ضروری تھی۔ وہ عوام کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان نظریاتی اختلاف کی گہرائی کو بھی نہیں سمجھتے، پھر وہ یہ بھی نہ جان سکے کہ پیپلز پارٹی اس وقت آصف علی زرداری کی قیادت کے بحران سے گزر رہی ہے۔ جو خود اپنی اولاد تک میں غیر مقبول ہیں۔ حادثاتی طور پر وہ اس پارٹی پر قابض ہوگئے ہیں اور ایسے وقت میں جب پی پی پی کے سب رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر دم بہ خود تھے اور اس وقت جب جناب آصف علی زرداری نے پی پی پی کی کمان سنبھالی تو انہوں نے بادل نخواستہ خاموشی اختیار کی اگرچہ وہ جانتے تھے کہ محترمہ، آصف علی زرداری کو سیاست سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔ اُن کا ایک دم قومی موقف اپنانے نے بھی شک و شبہ کو جنم دیا۔ اس لئے پنجاب کے عملی سیاستدانوں کیلئے سلمان تاثیر کے ساتھ نتھی ہونا مشکل کام تھا۔ اس وجہ سے وہ اور جناب منظور وٹو صاحب ملکر بھی پنجاب میں حکومت بنانے کا وہ ہدف حاصل نہ کرسکے جس کا وہ گورنری کے آداب کو بالائے طاق رکھ کر اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ پنجاب میں پی پی پی کی حکومت قائم کردیں گے۔ شہباز شریف پر اگرچہ اُنکے سخت مزاج اور نظم و ضبط کے حوالے سے سخت گیر ہونے کے الزامات لگے مگر اُن کو عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے اور دو روپے کی روٹی دستیاب کرنے پر انہیں غیرمعمولی مقبولیت نصیب ہوئی۔ پھر مرکز میں ایک چھوٹے درجے کا پولیس افسر جس کو تربیت کی ضرورت تھی، جسے عوام کے مزاج سے واقفیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا‘ وہ ملک کا مشیر داخلہ بنا دیا گیا تھا، جس نے طاقت کا غیر ضروری استعمال کرکے پنجاب کے عوام کو خصوصاً اور ملک کے عوام کو عموماً مقید کردیا تھا۔ جس نے بدانتظامی کو نمایاں اور ایک اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کے مزاج اور خواہش کو الم نشرح کردیا۔ صوبہ پنجاب کے عوام پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ایثار شعار بھی ہیں اگرچہ بیورو کریسی اور دیگر معاملات میں کشمکش اُنکے اِن صفات کو دھندلا ضرور کر دیتی ہے مگر یکسر ختم نہیں کرتی‘ اس لئے پنجاب کے ممبران اسمبلی کی بولی لگائی نہ جاسکی۔ اس وقت بھی یہ بڑبڑا ضرور رہے تھے جب وہ ایک آمر کو ووٹ دینے کیلئے آرمی ہائوس پنڈی گئے تھے مگر اس وقت اُنکے پاس وہ قیادت موجود نہیں تھی جو اب دستیاب ہے۔
پنجاب میں کئی اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پنجاب کے عوام تکالیف سے دور رہتے ہیں یا کسی تحریک میں بھرپور کردار ادا نہیں کرتے یا دیر سے اس طرف راغب ہوتے ہیں، مجھے میرے ایک دوست نے آج سے تقریباً دس سال پہلے یہ کہہ کر حیران کردیا تھا کہ ایسا نہیں ہے، اب پنجاب کا ہر چھٹا نوجوان جہاد میں حصہ لے رہا ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ پنجاب کو انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہئے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو سندھ، بلوچستان اور سرحد میں بھی اثرو رسوخ بڑھانا چاہئے۔ جس کے امکانات روشن ہیں۔ انہوں نے پنجاب کو بیدار تو کرلیا مگر شاید اِن صوبہ جات میں اُن کو زیادہ محنت کرنا پڑے اور انہیں کرنا چاہئے تاکہ پھر کسی طالع آزما کے کسی کارڈ کے استعمال کا خطرہ باقی نہ رہے۔