پاکستان فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے راستے پر ہے حالات بتاتے ہیں کہ اب صرف باضابطہ اعلان باقی ہے۔ پاکستان نے تمام نکات پر کام مکمل کر لیا ہے یہی وجہ ہے ہماری کوششوں کو ناصرف سراہا گیا ہے بلکہ اس حوالے سے پاکستان پر چھائے خطرات کے سائے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ یقینی طور پر بہت حوصلہ افزا ہے۔ گوکہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ دیگر ممالک کی نسبت سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اس اجلاس میں بھی پاکستان کے گرے لسٹ سے نکالے جانے کا اعلان کیا جا سکتا تھا لیکن پھر فیصلہ سازوں نے ہمارے ایک اور امتحان کا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک خطرہ تو لاحق رہے گا لیکن پھر بھی امکان ہے کہ اب یہ اعلان بھی ہو جائے گا۔ اس وقت فیٹف کی گرے لسٹ میں پاکستان، متحدہ عرب امارات، ترکی،شام اور یمن سمیت تیئیس ممالک شامل ہیں۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو تیسری مرتبہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ گرے لسٹ میں شامل رہنے سے پاکستان کی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری پر بھی بہت منفی اثر رہا ہے۔ چونکہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار بین الاقوامی سرمایہ کاری پر ہے گرے لسٹ میں برقرار رہنا درآمدات، برآمدات اور ترسیلات زر پر منفی اثرات چھوڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قرضوں تک رسائی کو محدود ہوتی ہے۔تاہم فیٹف کی گرے لسٹ میں نکلنے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کے معاملات میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری میںآسانی ہونے سے راستے کھلتے ہیں، آمد و رفت میں اضافہ ہوتا ہے دنیا کا اعتماد بحال ہونے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
بہرحال جب فیٹف پر سب اپنا کریڈٹ لے رہے تو اس دوران وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس حوالے سے حقیقت کے بہت قریب بات کی ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ "پاکستان تحریک انصاف نے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر کچھ کیا ہی نہیں، اس معاملے میں کچھ کردار تو اسٹیبلشمنٹ کا ہے جس نے فیٹف قانون سازی پر اتحادی جماعتوں کو سابق حکومت کے ساتھ ٹیبل پر بٹھایا ورنہ عمران تو اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے کو تیار ہی نہ تھے"۔ یعنی سادہ لفظوں میں زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ یعنی انتہائی اہم کام میں بھی سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو برداشت کرنا گوارہ نہیں کیا ویسے یہ کام حکومت کا ہوتا ہے اسے دل بڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں جو حکومت میں ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ شاید "کرسی" ہمیشہ کے لیے ہے۔ اسی رویے کو دیکھتے اور وفاقی وزیر داخلہ کے فیٹف نکات پر کام کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج کے کردار پر رائے سے ایک خیال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہم فیٹف نکات پر عمل کر سکتے ہیں، قانون سازی کر سکتے ہیں، قوانین بنا سکتے ہیں، عملدرآمد کروا سکتے ہیں تو پھر اگر ہم کرنا چاہیں بہت سا کام کسی کے بتائے، یا سختی کیے بغیر ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے ملک میں مختلف شعبوں سے کامیاب شخصیات پر مشتمل ایک طاقتور کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ کمیٹی غیر سیاسی بنیادوں پر بنائی جائے اور اس کمیٹی میں سیاسی وابستگی، سیاسی پس منظر کے بجائے مختلف شعبوں میں کامیابی کی بنیاد پر شامل کیا جائے۔ حکومت میں تبدیلی سے اس کمیٹی میں تبدیلی نہ آئے یہ کمیٹی کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ریاست کے لیے کام کرے۔ پاکستان میں ایسے کامیاب افراد کی کمی نہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کا حصہ ہوتے ہوئے ایسے تمام کامیاب افراد یا تو ہر وقت اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ کے دفاع اور مخالفین کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یا ان کا زیادہ وقت سیاسی جماعتوں کی تخریبی گفتگو میں ضائع ہوتا رہتا ہے۔ یوں ذاتی حیثیت میں کامیاب ایسی شخصیات قومی سطح پر وہ کام نہیں کر پاتے جن کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے ایسے کئی کامیاب افراد کو اپنے سامنے ضائع ہوتے دیکھا ہے۔ موجودہ نظام میں لوگ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے سیاست میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں ملک و قوم کی خدمت کے بجائے وہ شخصیات کی خدمت میں برسوں گذار دیتے ہیں اس دوران وہ ذاتی کام تو کرتے رہتے ہیں لیکن ملک کے لیے جو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ نہیں کر پاتے۔ ہمارے پاس کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو زراعت میں انقلاب لا سکتے ہیں، برآمدات، درآمدات کے حوالے سے کئی کامیاب شخصیات موجود ہیں، کئی کامیاب صنعتکار، بینکار موجود ہیں لیکن سب کسی نا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ جڑے ہیں اور سب کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا جا رہا ہے۔ کچھ پس پردہ جا چکے ہیں، کچھ چلے جائیں گے، کچھ آج سیاسی انتقام کا نشانہ بنیں گے، کچھ آنے والے دنوں میں مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اس کشمکش میں وقت گذرتا جائے گا اور ہم اپنے بہترین اور کامیاب افراد کو ضائع کرتے جائیں گے۔ ان لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ریاست کی ذمہ داری ہے جیسے فیٹف کے معاملے حکومت اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھایا گیا تھا ایسے ہی ایک ایسی طاقتور کونسل بنائی جائے جسے ملک کی معیشت کی بہتری کا ہدف دیا جائے۔ ہمیں حقیقی آزادی اور خودمختاری کے لیے نعروں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کام کسی نے باہر سے آ کر نہیں کرنا یہ کام ہمیں خود کرنا ہے۔ مکمل آزادی اور خود مختاری کے لیے تعصب اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنا پڑے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38