منگل ،21 ذیقعد 1443ھ،21جون 2022 ء

مہاجرین کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا گیا
مہاجرین کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ان بن بلائے مہمانوں کی خاطر تواضع اپنی بساط سے بڑھ کر کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ویسے بھی تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اس حوالے سے برمی‘ بنگالی‘ روہنگیا‘ ایرانی‘ عراقی‘ اور افریقی مہاجرین کو ہم نے کبھی خود پر بوجھ نہیں سمجھا خواہ ان کی وجہ سے کراچی جیسا شہر نیویارک بن گیا جو بدامنی میں سے سب سے آگے ہے۔ ان کی بدولت معاشی‘ رہائشی‘ کاروباری معاملات کے علاوہ اسلحہ و منشیات فروشی ‘ جبری قبضہ ر دیگر جرائم جیسے مسائل نے کراچی کے حسن کو گہنا دیا۔ اصل مسئلہ جس نے ہماری چولیں ہلا دی ہیں‘ وہ افغانستان سے آنے والے 40 لاکھ سے زیادہ مہاجرین تھے۔ ان بے خانماں‘ برباد مرد و زن بچوں اور بوڑھوں کو ہم نے اس طرح خوش آمدید کہا کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کورہائش‘ خوراک اور روزگار کے بھرپور مواقع یوں دیئے کہ آج بلوچستان اور خیبر پی کے کئی علاقوں کو ہم منی کابل‘ منی قندھار‘ منی ہرات کہہ سکتے ہیں۔ کوئٹہ اور پشاور میں تو مقامی اور غیرمقامی کی شناخت مشکل ہو گئی ہے۔ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی‘ حیدرآباد‘ راولپنڈی کے علاوہ دیگر کئی شہروں میں بھی انہوں نے اپنے علاقے بنا لئے ہیں۔ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے یہ اب مکمل پاکستانی بن کر ہم سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں اور ہر جگہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والی کیفیت نظر آتی ہے۔ یقین نہ آئے تو پاکستان میں کہیں چلے جائیں۔ افغانی کھانے اور مارکیٹوں میں ملبوسات‘ قالین اور برتن تک ملیں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ہاں آنے والے مہاجرین کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ سر پہ بھی بٹھایا ہے۔ ہمارے اس حسن سلوک کی بدولت یہ واپس جانے کو تیار نہیں۔ ہم سے یہ نکالے نہیں جا رہے۔ سو آج بھی ہم 15 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ خوشدلی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔
٭٭٭……٭٭٭
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش اور سیلاب سے جانی و مالی نقصان
جن علاقوں میں لوگ ہر وقت بارش کی دعائیں مانگتے تھے۔ وہاں بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ بلوچستان میں سالانہ بارش اوسطاً5 انچ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خشک سال کی کیفیت میں مبتلا علاقہ ہے۔ اب اگر کبھی بارش کھل کر برستی ہے تو وہاں جن علاقوں میں بارش ہوتی ہے۔ وہاں افراتفری مچ جاتی ہے۔ کچے مکان گر جاتے ہیں ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے تیز سیلابی ریلے کی زد میں آ کر بس ویگن یا کاریں بہہ جاتی ہیں‘ ایسا ہر بارش میں ہوتا ہے۔ باقی باتیں چھوڑیں پل تک بہہ جاتے ہیں ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے:
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
اگر حکومت وہاں پانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم بناتی بھی ہے تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ ایک عام بارش سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ کیونکہ سرکاری محکمہ اور ٹھیکیدار انہی ڈیموں کی بدولت کروڑوں روپے ہر سال کماتے ہیں۔ اگر ان ڈیموں کی بجائے حکومت سیلابی ریلے والے راستوں میںگہرے گڑھے بنا دے تو بھی یہ پانی وہاں تالاب کی شکل میں جمع ہو سکتا ہے۔ اس طرح ریت سے بنی سڑکیں۔ پل اور غریبوں کے کچے گھر تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ خدا کرے اس موسم میں بلوچستان میں خوب بارش ہو تاکہ وہاں طویل خشک سالی کا خاتمہ ہو۔ ابھی تک بلوچستان کے جنوبی علاقوں میں بارش کھل کر نہیں ہوئی۔ دعا ہے مکران‘ خاران‘ خضدار ‘ تربت اور پنجگور میں بھی ابر کرم برسے تاکہ وہاں بھی مخلوق خدا کو خشک سالی سے نجات ملے۔
٭٭٭……٭٭٭
پتھر پھینکنے والوں کے گھر گرائے اور جلائے جاتے ہیں‘ ٹرینیں جلانے والوں کے کیوں نہیں: اسد اویسی
بھارت میں اس وقت جو بدامنی کی صورتحال سامنے ہے۔ اس سے بھارت کا منافقت سے بھرا مکروہ چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ چند ہفتے قبل بھارت کے دو بدزبان سیاسی رہنمائوں نے جن کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی سے تھا‘ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جس پر دنیا بھر میں مسلمانوں نے بھارت کی مذمت کی۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں‘ انہوں نے بھی بھرپور احتجاج کیا جس پر پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا۔ گولیاں چلائیں‘ لاٹھی چارج ہوا۔ آنسو گیس استعمال ہوا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے صرف پتھرائو کیا۔ اس جرم میں سینکڑوں مسلمان گرفتار ہوئے جن پر تھانوں میں بدترین تشدد کی ویڈیوز دنیا نے دیکھیں۔ ان مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزروں کی مدد سے گرایا گیا۔ مسلمانوں کی سینکڑوں دکانوں اور مکانوں کو جلایا گیا۔ یہ سب میڈیا پر ریکارڈ ہے۔ اس کے برعکس چند دن قبل قدرت نے ایسا پانسہ پلٹا کہ بی جے پی حکومت کی فوجی بھرتی کی پالیسی کے خلاف ہزاروں ہندوئوں نے مختلف شہروںمیں خوب جلائو گھیرائو کیا۔ ٹرینوں کو‘ بسوں کو گاڑیوں کو سرکاری دفاتر کو جلایا گیا۔ اس کے جواب میں کیا مجال ہے کہ پولیس نے تشدد کیا ہو۔ کسی کا گھر گرایا ہو‘ یاجلایا ہو۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ سب ہندو مظاہرین تھے۔ اس دوغلی پالیسی پر بھارتی ممبر پارلیمنٹ اسد اویسی نے درست سوال کیا ہے کہ ایسا کیوں۔ ایک ہی ملک کے شہریوں کے ساتھ یہ غیر مساویانہ سلوک کیوں۔ معروف بھارتی سکالر ارون دھتی رائے نے تو صاف کہا ہے کہ موجودہ حالات ہندو فاشسٹ نظام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں عالمی برادری اس ہندو نازی ازم پر نوٹس لیتی ہے یا نہیں۔
٭٭٭……٭٭٭
جو لوگ علاج کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے نام ہیلتھ انشورنس سکیم سے نکال دینگے : اویس لغاری
خدا کرے ایسا ہو اور یہ پیسے والے لیٹرے جو غریب غربا کی بنی ہر سکیم میں اپنا حصہ لینے پہنچ جاتے ہیں ان سے جان خلاصی ہو۔ شرم اور دکھ کی بات ہے کہ بے نظیر پروگرام ہو یا احساس پروگرام‘ غربت مکاؤ ہو یا کفالت کے نام سے شروع کوئی بھی سکیم۔ اس میں 70 فیصد سے زیادہ وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کی سیاسی سفارش ہو اور یہ سب کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب یہی معاملہ علاج کے لئے صحت کارڈ کا بھی ہے۔ 10 میں سے 6 ایسے لوگ اس میں شامل ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر صحت کارڈ والے نجی مہنگے ہسپتالوں میں علاج کرا رہے ہیں جہاں عام آپریشن کا خرچہ بھی لاکھوں میں آتا ہے۔ غریب آدمی تو کارڈ ہونے کے باوجود ان ہسپتالوں کا رخ کرنے سے گھبراتا ہے۔ اب صوبائی وزیر خزانہ اویس لغاری نے صحت کارڈ کے حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے وہ صائب ہے یہ صحت کارڈ صرف غریبوں کو جاری کیا جائے تاکہ ان کو علاج معالجے میں جو دشواریاں اور مالی پریشانیاں درپیش ہیں وہ ختم ہوں۔ پیسے والوں کا کیا ہے وہ تو نجی ہسپتالوں سے بھی معاملہ طے کر کے آدھا آدھا یعنی ففٹی ففٹی پر انہیں راضی کر دیں گے۔ یوں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا آئے گا اور چند ہزار کا خرچ 4 لاکھ لکھ کر دونوں آدھا آدھا یعنی دو دو لاکھ جیب میں ڈال لیں گے۔ یوں مریض اور ڈاکٹر دونوں خوش رہیں گے۔