وزیراعظم کا امریکہ کو اڈے دینے سے بجاطور پر دوٹوک انکار
وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لیے اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سی آئی اے کو سرحد پار انسداد دہشت گردی کے مشنز کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بالکل نہیں دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں فضائی آپریشن کے لیے ہوائی اڈے نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی طرح افغانستان کے خلاف استعمال نہیںہونے دیں گے۔ ممکن ہی نہیں کہ ہم امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لیے پاکستان میں اڈے دیں۔ امریکی چینل کو انٹرویو میں جب میزبان نے وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا کہ کیا آپ امریکی حکومت کو اجازت دیں گے کہ سی آئی اے یہاں پاکستان سے سرحد پار القاعدہ، داعش اور طالبان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مشنز سر انجام دے سکے؟ اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہرگز نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ہم یہ اجازت دیں گے۔
امریکہ نے نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی کی تو اسے پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویزمشرف ان دنوں پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول کرکے اقتدار اور اختیارات پر فرد واحد کی حیثیت سے براجمان ہوچکے تھے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملے کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی بات کی تو جنرل پرویز مشرف نے سیاسی ناتجربہ کاری کی بنا پر ہاں کردی۔ امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں سے مل کر پاکستان کی شاہراہیں اور تنصیبات استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور مرضی کی جمہوریت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ طالبان نے اپنی بے دخلی اور امریکی مروجہ جمہوریت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہتھیار اٹھا لئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طاقتور کے زعم اور زور پر افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کی مگر بری طرح ناکام رہے۔ امریکہ اور طالبان مسلسل 20 سال دو انتہائوں پر رہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اس دوران امریکہ کی افغانستان میں شروع کی ہوئی دہشت گردی کیخلاف جنگ پاکستان میں بھی در آئی۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بری طرح دہشت گردی کا شکار ہوا ۔سات ہزار سکیورٹی اہلکاروں و افسروں سمیت 80 ہزار عام شہری اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ 128 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں نقصان ہوا۔ پاکستان پر 80ء کی دہائی میں افغان مہاجرین کا بوجھ پڑنا شروع ہوا جس میں امریکہ کی مہم جوئی کے دوران مزید اضافہ ہوا۔ آج پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 50 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں۔
پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور امن معاہدے پر اتفاق کرلیا۔ اس معاہدے کی رو سے امریکہ نے گزشتہ ماہ مئی تک افغانستان سے مکمل انخلا کرنا تھا جس میں بوجوہ بائیڈن انتظامیہ نے 11 ستمبر تک التوا کا فیصلہ کیا۔ اس پر طالبان بادل نخواستہ آمادہ ہوئے۔ معاہدے کے مطابق امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا جاری ہے۔ اشرف غنی کٹھ پتلی حکومت نے امریکہ کو افغانستان میں روکنے کی بڑی کوشش کی، سازشیں اور ڈرامہ بازیاں بھی کی گئیں مگر امریکہ انخلا کے معاہدے پر قائم ہے تاہم اس کی طرف سے افغانستان کے حالات پر انخلا کے بعد بھی کڑی نظر رکھنے کیلئے کوشش ہورہی ہے۔ اس کی طرف سے پاکستان سے ہوائی اڈا دینے کی بات کی گئی ہے جسے پاکستان کی طرف سے مسترد کردیا گیا جس کا اعلان وزیر خارجہ اور دفتر خارجہ کی طرف سے متعدد بار کیا گیا اور کل وزیراعظم عمران خان نے بھی امریکہ کو اپنے انٹرویو میں اڈے فراہم نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک جواب دیدیا۔ یہی پاکستان کی بہترین حکمت عملی ہے۔ ہم جس دلدل میں جنرل پرویز مشرف کی نادانی کی وجہ سے پھنس گئے تھے اس سے بڑی مشکل سے نکل رہے ہیں۔ امریکہ کو ایک بار پھر تنصیبات کے استعمال کی اجازت دینے کا مطلب مصیبت کو ’’ماسی‘‘ کہنے والی بات ہوگی۔ امریکہ نے ترکی سے شام میں کارروائیاں کرنے کیلئے ایک فوجی اڈا مانگا تھا۔ ترکی نے اس کا 55 ارب ڈالر معاوضہ طلب کیا۔ ہماری تنصیبات کا کتنا معاوضہ بنتا ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا 128 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو صرف 20 ارب ڈالر ادا کئے گئے۔ امریکہ مزید تعاون طلب کرنے سے قبل پاکستان یہ نقصان تو پورا کرے۔ خطے میں پائیدار امن امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک مستحکم سیٹ اپ ہی سے بحال ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے افغانستان کے اندر وسیع تر اتفاق رائے ضروری ہے۔ امریکہ اپنی مداخلت برقرار رکھنے کے بجائے ایسے سیٹ اپ کے قیام کی طرف توجہ دے۔ دوسری صورت میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول دوبارہ نوے کی دہائی جیسی مخدوش صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔