ای سی پی : الیکشن ایکٹ ترامیم پر اعتراضات
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)نے حال ہی میں حزبِ اختلاف کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل 2020ء پر اپنے تحفظات اور اعتراضات کا باضابطہ اظہار کیا ہے۔ ای سی پی کے سیکرٹری کے ڈاکٹر اختر نظیر نے باضابطہ طور پر وزارتِ پارلیمانی امور کے سیکرٹری کے نام ایک خط لکھ کر انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے معاملہ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس میں لانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بل کے سینیٹ میں پیش ہوتے وقت ان تحفظات اور اعتراضات کا حل فراہم کیا جاسکے۔ خط میں الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی 22 شقوں پر اعتراض کیا ہے اور ان میں 13 شقوں کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دیا ہے۔ سیکرٹری ای سی پی کی طرف سے الیکشن ایکٹ کی جن شقوں کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے ان میں آبادی کی بجائے ووٹرز پر حلقہ بندیوں کی تجویز بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، خط میں سینیٹ انتخابات کے دوران خفیہ کی بجائے اوپن ووٹنگ کو آئین اور سپریم کورٹ کی رائے کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ انتخابی فہرستوں سمیت متعدد شقوں میں تر امیم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی سے 10 جون کو الیکشن ترمیمی بل کے ذریعے الیکشن ایکٹ کی 57 شقوں میں ترامیم کرائی گئیں۔ ان میں سے 35 شقوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن 22شقوں پر تحفظات ہیں۔ مجلس قائمہ برائے پارلیمانی امور کے اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی موجود تھی تاہم مجلس قائمہ نے8جون کو الیکشن کمیشن کے نمائندے کو کمیشن کا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا۔ مجلس قائمہ کے اس عمل سے ای سی پی کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کی طرف سے الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔ الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل پر ای سی پی اور حزبِ اختلاف کے اعتراضات کو یکسر نظر انداز کرنا مناسب اور جمہوری رویہ ہرگز نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ای سی پی کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے تمام پہلوؤں جائزہ لیتے ہوئے الیکشن ایکٹ میں سے ایسی ترامیم کو نکلوانا چاہیے جو آئین سے متصادم ہیں تاکہ حکومت اور آئینی اداروں کے درمیان اختلافات ختم ہوں اور کسی بھی یہ تاثر نہ ملے کہ حکومت آئین اور آئینی اداروں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے مستقبل میں کچھ خاص مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔