سر راہے
پرویزالٰہی سے حمزہ شہباز کی ملاقات، نئی اسمبلی بلڈنگ کی مبارکباد
چلیں کچھ تو برف پگھلی، دو متضاد سمتوں میں سفر کرنے والے کسی موقع پر یکجا تو ہوئے۔ مبارکباد کے بہانے ہی بالآخر پرویزالٰہی اور حمزہ شہباز ایک دوسرے سے ملے۔ رشتہ تو ان کے درمیان کافی پرانا تھا بس اختلافات کی خلیج کچھ زیادہ ہی گہری ہوگئی تھی جس کی وجہ سے یہ دونوں گھرانے یعنی چودھری اور شریف فیملی اپنی روایات اور وضع داری تک بھول گئے۔ بات چیت علیک سلیک تک ختم کردی۔ چودھری برادران نے عمران خان کے ساتھ سیاسی جوڑی بنائی تو توڑ نبھانے کی رسم کو زندہ رکھا کئی مرحلے ایسے آئے کہ راہ جدا ہوتی نظر آئی مگر وہی سیاسی وضع داری آڑے آئی اور معاملات طے پاتے رہے۔ شریف برادران نے جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ کندھا ملایا مگر یہ جوڑی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ جلد ہی پیپلزپارٹی والے اپنی راہ لگے اور مسلم لیگ ن اپنی راہ ،یوں شریف اور زرداری اتحاد کا گھڑا بیج ’’بجریا‘‘ میں پھوٹ گیا۔ اگر شریف برادران ذرا دل وسیع کریں تو مولانا فضل الرحمن ق لیگ اور ن لیگ کو یکجا نہ سہی ساتھ ساتھ شانہ بشانہ قدم بہ قدم چلانے کی راہ نکال لیتے مگر ایسا نہ ہوا۔ اب بہت سا وقت گزر چکا، پرویز الٰہی بھی بجٹ میں ساتھ دینے کا قول قرار کرچکے۔ اس لئے پرویزالٰہی اور حمزہ شہباز ملاقات کی حکومت کو کچھ فکرنہیں ۔ ہاں البتہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان کم از کم میل ملاپ کا راستہ ضرور کھل سکتا ہے جو آگے چل کر کسی نئے سیاسی باب کا آغاز ہوسکتا ہے…
٭٭٭٭٭
تلخیاں ختم نہ کیں تو الیکشن میں ٹرمپ اور جوبائیڈن والا حال ہوگا: شیخ رشید
شیخ رشید کے منہ سے ایسی حکیمانہ باتیں سن کر طبیعت بوجھل سی ہونے لگی ہے، کسی کو ان سے ایسی ناصحانہ باتیں سننے کی توقع ہی نہیں اب ان کی یہ باتیں سن کر
دی شب وصل مؤذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
والا شعر زبان پر مچلنے لگتا ہے۔ ساری زندگی ’’آگ لگانے آیا ہوں میں آگ لگا کر جائوں گا‘‘ جیسی گزارنے والا آج آگ بجھانے کی باتیں کررہا ہے۔ خدا جانے ایسا کیا ہوا کیا یہ عمر کے بیتے 60، 65 سالوں کا تجربہ ہے یا بڑھاپا کی ٹھہرائو والی سوچ کا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی ساری زندگی جی ایچ کیو کے آس پاس سیاست کرتے گزری ہے وہ جی ایچ کیو کے اندر ہونے والی چہل پہل ، بوٹوں کی آواز اور مدہم سرگوشیوں کو بھی جان لیتے ہوں گے کہ کیا ہورہا یا کیا ہونے والا ہے۔ اب وہ بھی 90 دن میں تبدیلی کروڑوں نوکریوں، لاکھوں مکانوں کے فلسفے کو تیاگ کر مہنگائی ختم کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی خوش کن نعرہ غریب کیلئے سستی روٹی سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ اس لئے سیاسی تلخیوں سے انہیں خوف ہے کہ کہیں امریکی صدارتی الیکشن والا حال نہ ہو جب ٹرمپ کے حامیوں نے امریکہ میں طوفان مچایا اورامریکی ایوان بالا میں داخل ہوکر وہاں جمہوریت کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ہمارے ہاں ایسی صورتحال میں کہیں جمہوریت کا مردہ دفن کرنے کی ہی نوبت نہ آجائے…
٭٭٭٭٭
لاہور قلندر اور کوئٹہ گلیڈیٹرز پی ایس ایل کے 6 ایڈیشن سے باہر
کھیل ہی کھیل میں کھیل سے باہر ہوجانا بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ لاہور قلندر پر یہ بات سو فیصد فٹ بیٹھتی ہے۔ جب کھیلنے پر آئے تو جان توڑ مقابلہ کرتے ہیں جب نہ کھیلنا ہو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں کھیلنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ پی ایس ایل کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی لاہور قلندر کھیلے تو خوب کھیلے ایسی دھمال ڈالی کہ اچھی اچھی ٹیموں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اگر نہیں کھیلے تو قلندر ایسے مدہوش اور مست پڑے نظر آئے گویا منوں کے حساب سے بھنگ پی کر لیٹے ہیں۔ یہ تو آفرین ہے ٹیم کے مالک فوادرانا پر جو ان قلندروں کو گلے سے لگائے پھرتے ہیں کسی کی نہیں سنتے ورنہ ناقدین تو ان سے کہتے ہیں کہ سمندر قریب ہے دبئی سٹیڈیم سے قلندروں کو جاکر اس میں پھینک دیں۔ اب بھی وقت ہے فوادرانا سنبھل جائیں اور اپنی ٹیم کا نام بدل لیں ان کو یہ نام راس نہیں آرہا۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ لاہوری منڈے ،لاہوری جوان یا جو چاہے رکھ لیں۔ اس قلندر سے جان چھڑائیں۔ بلوچستان والوں کو کیا ہوا وہ تو جنگجو تھے مگر اس بار شروع ہی سے کام خراب نظر آیا نہ وہ جوش نہ وہ کارکردگی بس ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ والی حالت ان پر بھی طاری نظر آئی۔ اب دونوں ٹیمیں کھیل سے باہر ٹکٹ کٹائو لائن بنائو سامان باندھے واپسی کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور ان کے پرجوش حامی ان کو بے نقط کی سنا رہے ہیں…
٭٭٭٭٭
ارطغرل غازی سے فراڈ کرنے والا ریمانڈ پر پولیس کے سپر د
امید ہے اب ترک ڈرامے میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے اداکار کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کے چاہنے والوں میں کیسے کیسے فنکار بھی موجود ہیں۔ ضروری نہیں جو شخص ڈرامے میں یا فلم میں بہادر جنگجو اور سمجھدار ہو وہ حقیقی زندگی میں بھی ویسا ہی ہو۔ مرحوم اداکار سلطان راہی کی مثال سب کے سامنے ہے انہیں لوٹنے والے ڈاکوئوں نے سرعام پہچاننے کے باوجود انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اگر یہی فلمی سین ہوتا تو ایک دو ڈاکو تو کیا ڈاکوئوں کا پورا لشکر جرار بھی ہوتا تو وہ نہتے سلطان راہی کے ہاتھوں مارا جاتا۔ اب ارطغرل غازی کا کردار ادا کرنے والے ترک اداکار کو ہی دیکھ لیں۔ ڈرامے میں عقل مند دانشور سردار کا کردار ادا کرنے والے ہیرو سے ایک عام فراڈی ٹک ٹاکر کس طرح ’’دو ہاتھ‘‘ کرگیا اور اسے خبر بھی نہ ہوئی۔ موصوف پاکستان بھی آئے مگر یہاں بھی اس فراڈیئے کو پہچاننے میں دھوکہ کھا گئے۔ ترکی گئے تو شاید استنبول کے نلکوں کا پانی پی کر عقل ٹھکانے آئی اور پتہ چلا پیسوں کی ادائیگی میں اس کے ساتھ فراڈ ہوچکا ہے اور کیس کردیا اب کاشف ضمیر فراڈ کے الزام میں پولیس کا مہمان بنا ان کی مہمانداری سے لطف اندوز ہورہا ہے اور ارطغرل غازی ترکی میں بیٹھ کر اس پاکستانی فراڈی کو برا بھلا کہہ رہا ہے…
٭٭٭٭٭